مزید خبریں

رسول ﷺ کا عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک

رسولؐ جس زمانے، علاقے اور معاشرے میں تشریف لائے، وہاں عورتوں سے حسنِ سلوک تو دور کی بات ہے، ان کی انسانی حیثیت بھی موضوعِ بحث بنی ہوئی تھی، آپ نے اس ماحول و معاشرے میں عورت کو عدل و انصاف کے ساتھ وہ تمام حقوق عنایت فرمائے، جن کی وہ مستحق تھیں۔ آپ نے خود بھی ہمیشہ صنفِ نازک کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کیا اور دوسروں کو بھی اس جانب توجہ دلائی، یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی آپ کو لوگوں کی طرف سے اس جانب بے اعتدالی کا خوف ستاتا رہا۔ آپ نے کس طرح اور کس درجے اس کمزور طبقے کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کیا، اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اولاً آپ کی بعثت سے قبل معاشرے میں ان کی حالت پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
رحمۃ للعالمینؐ کی آمد سے قبل عورتوں کی حالت نہایت خراب تھی، موروث کے متروکے میں سے ان کو کچھ نہیں ملتا تھا، لڑائیوں میں مفتوحہ قبیلے کی عورتیں عین میدانِ جنگ میں فاتحین کے تصرف میں آجاتیں، طلاق کے لیے کوئی مدت اور عدت نہ تھی، یعنی جب تک شوہر چاہے عورت نہ شوہر کے پاس رہ سکتی تھی، نہ کسی اور سے شادی کر سکتی تھی، عورت کا جو مہر مقرر ہوتا وہ باپ کو ملتا، عورت کو اس سے سروکار نہ ہوتا۔ باپ مر جاتا تو اس کی کل بیویاں (بجز حقیقی ماں کے) تصرف میں آتیں یعنی عورت بیوہ ہونے کے بعد اپنے شوہر کے وارثوں کی مِلک سمجھی جاتی، وہ اگر آکر بیوہ پر چادر ڈال دیتا تو وہ اس کی جائز مدخولہ بن جاتی۔ عورت جب بیوہ ہو جاتی تو اسے گھر سے باہر ایک نہایت تنگ کوٹھری رہنے کو اور خراب سے خراب کپڑے پہننے کو دیے جاتے ، خوشبو وغیرہ قسم کی کوئی چیز استعمال نہ کر سکتی، اس حالت کے ساتھ جب پورا سال گزر جاتا تو ایک بکری یا گدھا لاتے، اس سے وہ اپنے جسم کو مس کرتی، پھر کوٹھری سے باہر نکلتی اور اس کے ہاتھ میں مینگنی دی جاتی، وہ مینگنی کو پھینک دیتی، اس وقت سوگ سے نکل آتی اور سابقہ حالت بحال ہوتی۔ غرض مجموعی حیثیت سے عورت بد ترین مخلوق اور ہر قسم کے جبر و تعدی کا تختہ گاہِ مشق تھی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی، اس کو سخت رنج ہوتا اور شرم کے مارے لوگوںمیں چھپتا پھرتا، رفتہ رفتہ دختر کشی کی رسم جاری ہو گئی، لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو میدان میں لے جا کر گڑھا کھودتے اور اس میں اسے زندہ گاڑ دیتے۔ ایک صاحب نے آپؐ کی خدمت میں آکر ظاہر کیا تھا کہ انھوں نے اسلام سے قبل اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی تھیں۔ ایسے معاشرے کی اصلاح رسولؐ نے اپنے قول وفعل سے کی اور حجۃ الوداع کے موقع پر عورتوں کے حقوق کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’غور سے سن لو، میں تمھیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں‘۔ (ترمذی)
بحیثیت بیٹا
آج خود فیمنسٹ (Femenist) اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے گھروں میں ان کی حقیقی ماں کی آواز دبا دی جاتی ہے اور ان کو سر ڈھکنے کے لیے چھت تک نصیب نہیں ہوتی؛ جب کہ رسولؐ نے اپنے متبعین کو یہ تعلیم دی کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (ابن ماجہ) بلکہ آپ نے فرمایا: انسان کے حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق اْس کی ماں ہے۔ (بخاری) رسولؐ کی حقیقی والدہ کو تو زیادہ دن جینا نصیب نہیں ہوا، آپ چھ سال کے تھے کہ آمنہ خاتون نے اپنے خسر عبد المطلب سے چند روز کے لیے اپنے میکے قبیلہ بنی نجار میں جانے کی اجازت لی اور ام ایمن کو مع آپؐ کے، ساتھ لے کر مدینے پہنچیں۔ وہ مدینے میں ایک ماہ ٹھہر کر مکّے واپس ہورہی تھیں کہ راستے میں موضع ’’ودّان‘‘ کے قریب ’’ابوا‘‘ مقام میں راہیِ ملکِ بقا ہو کر وہیں مدفون ہوئیں اور سیدنا محمدؐ کو آپ کی دایہ امِ ایمن مکّے لے کر آئیں۔ اس طرح آپ کو والدین کے کنارِ عاطفت میں، جو بچپن کے لیے ایک بڑی نعمت ہے، تربیت پانے کا اتفاق نہ ہوا۔ (تاریخِ اسلام عاشقی) یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ آپ کے واقعات دستیاب نہیں؛ البتہ آپ کی رضاعی مائیں متعدد ہیں اور آپ ان سب سے الفت و محبت اور احترام سے پیش آتے تھے، خصوصاً سیدہ حلیمہؓ کے ساتھ آپؐ کو بے انتہا محبت تھی، عہدِ نبوت میں جب وہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ’’میری ماں، میری ماں‘‘ کہہ کر ان سے لپٹ گئے۔ (سیرۃ النبی) ثْویبہ کے لیے آپ خود مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ میں حْلّے اور کپڑے بھیجا کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ خیبر کے بعد فوت ہو گئیں۔ (مدارج النبوۃ)
بحیثیت بھائی
رسولؐ اپنے والدین کی تنہا اولاد تھے، اس کے باوجود آپ نے بھائی بہن کے رشتے کی حقیقت کو خوب سمجھا اور اس پر لوگوں کو خوب توجہ دلائی، آپ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے، وہ جنت کا حق دار ہوگا۔ (ترمذی) غزوۂ حنین میں سیدہ شیماؓ (آپؐ کی رضاعی بہن) قید ہو کر آئیں، آپ نے جب انھیں پہچان لیا تو فرطِ محبت سے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اْن کے بیٹھنے کے لیے خود مبارک چادر بچھائی، محبت کی باتیں کیں، چند شتْر اور بکریاں عنایت فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ جی چاہے تو میرے گھر چل کر رہو اور اپنے گھر جانا چاہو تو وہاں پہنچا دیا جائے۔ انھوں نے خاندان کی محبت کی وجہ سے وطن جانا چاہا؛ چنانچہ عزت و احترام کے ساتھ وہاں پہنچا دی گئیں۔ (سیرۃ النبی) یہی نہیں؛ بلکہ ان کی رعایت میں اس موقع پر قید ہو کر آئے چھ ہزار قیدیوں کو بھی آپ نے نہ صرف رہا کر دیا؛ بلکہ ان کے اموال بھی لوٹا دیے۔
بحیثیت شوہر
میاں بیوی کا رشتہ تو بڑا ضروری اور بڑا ہی عجیب ہوتا ہے کہ اکثر لوگ اس بابت افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتے ہیں، بعض بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں تو بعض غلام بنے نظر آتے ہیں۔ رحمۃ للعالمینؐ نے اس سے متعلق بھی حکیمانہ اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: شوہر کے ذمے عورت کے یہ حقوق ہیںکہ جو خود کھائے وہی اپنی بیوی کو کھلائے، اپنے لیے کپڑے بنائے تو اس کے لیے بھی بنائے، اس کے چہرے پر نہ مارے، اسے بْرا بھلا نہ کہے اور اسے بلا وجہ کہیں اکیلا نہ چھوڑے؛ مگر یہ کہ گھر میں۔ (مسند احمد) آپؐ اپنی بیویوں کی سہولت کی خاطر اپنے بہت سے کام از خود انجام دے لیا کرتے تھے، جیسا کہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ اپنے سر سے جوئیں نکال لیتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ اپنے بہت سے کام خود کر لیا کرتے تھے۔ آپ اپنے گھر میں کاموں میں لگے ہوتے، جب نماز کا وقت ہوتا تو سب چھوڑ کر چلے جاتے۔ (ترمذی) آپ فرماتے تھے کہ عورتیں، شریف شوہروں پر غالب آجاتی ہیں اور کمینے شوہر بیویوں پر غالب آجاتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کے شریف وکریم رہوں (چاہے) مغلوب رہوں اور میں اسے پسند نہیں کرتا کہ کمینہ اور بد اخلاق ہوکر ان پر غالب آجاؤں۔ (روح المعانی) نیز آپ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے، جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہوں۔ (ترمذی) بلکہ آپ نے اسے ایمان کے کامل ہونے کی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے، جو اخلاق میں بہتر ہو اور تم میں بہتر لوگ وہ ہیں، جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہوں۔ (ترمذی)
بحیثیت والد
زمانۂ جاہلیت میں مشرکین عورت کو کسی رتبے اور مقام کا اہل نہ سمجھتے تھے؛ اس لیے وہ لڑکی پیدا ہونے پر غضب ناک ہوتے؛ حالانکہ وہ بھی یہ جانتے تھے کہ نظامِ کائنات کے تحت شادیوں کے لیے لڑکی کی پیدائش ضروری ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا۔ آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرے، اور انھیں اپنی حیثیت کے مطابق پہنائے، تو یہ لڑکیاں اس کے لیے آگ سے حجاب ہوں گی۔ (ابن ماجہ) ایک موقع پر فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں، جن کے رہنے سہنے کا وہ انتظام کرتا ہو اور اْن کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہو اور اْن سے شفقت کا برتاؤ کرتا ہو تو یقیناً اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ ایک شخص نے پوچھا: اگر دو ہی (بیٹیاں) ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: خواہ دو ہی ہوں (ان سے حسنِ سلوک پر بھی یہی خوش خبری ہے)۔ (ادب المفرد)
رسولؐ اپنی بیٹیوں‘ خصوصاً سیدہ فاطمہؓ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان میں رسولؐ کے عادات و اطوار کی جھلک نمایاں تھی، جیسا کہ سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک روز سیدہ فاطمہؓ آئیں، ان کی چال رسولؐ کی چال کی طرح تھی۔ رسولؐ نے فرمایا: بیٹی خوش آمدید! اس کے بعد آپ نے ان کو اپنی داہنی طرف یا اپنی بائیں طرف بٹھا لیا، پھر آہستہ سے کوئی بات کہی، تو وہ رونے لگیں۔ میں نے ان سے پوچھا: تم روتی کیوں ہو؟ پھر ایک بات ان سے آپ نے آہستہ سے کہی تو وہ ہنسنے لگیں، میں نے کہا: آج کی طرح میں نے خوشی کو رنج سے اس قدر قریب نہیں دیکھا۔ میں نے دریافت کیا: حضور نے کیا فرمایا؟ سیدہ فاطمہؓ نے کہا: میں رسولؐ کے راز کو افشا کرنا پسند نہیں کرتیں۔ جب رسولؐ کی وفات ہوگئی تو میں نے سیدہ فاطمہؓ سے پوچھا تو انھوں نے کہا: آپ نے پہلی مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا کہ جبرئیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کا دَور کیا کرتے تھے، اس سال انھوں نے مجھ سے دو بار دور کیا ہے، اس سے میرا خیال ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا اور تم میرے تمام گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی تو یہ سن کر میں رونے لگی، پھر دوسری مرتبہ فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمام جنتی عورتوں کی یا تمام مومنات کی سردار ہو، اس وجہ سے مجھے ہنسی آگئی۔ (بخاری) اس حدیث سے رسولؐ کا اپنی صاحبزادی سے اور ان کا اپنے والد سے تعلقِ خاطر کا خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔