مزید خبریں

کنبے کی محبت

کنبے کی محبت دْنیا کا طاقت ور ترین اور غالب ترین رشتہ ہے۔ مہد سے لحد تک والدین کی محبت، بچوںکی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت، بھائیوں اور بہنوں کی محبت، بلکہ دوسرے رشتے داروں کی محبت بھی ہماری زندگی کا محور بنی رہتی ہے۔ یہ محبتیں ہمارے تمام تعلقات پر غالب رہتی ہیں۔ عام طور پر ہماری زندگی، ہمارا روزگار اور مال و متاعِ دْنیا کا حصول اْنھی کی محبت کی خاطر اور اْنھی کی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے وقف ہوجاتا ہے۔
ہم اپنے دل ودماغ، اپنی توجہ اور وفاداری اور اپنے وقت اور دولت پر کسی اور حق سے پہلے عام طور پر اس محبت کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ کنبے کی محبت کا تعلق ہمیں جس طرح جوڑے رکھتا ہے اْس طرح کوئی اور تعلق نہیں جوڑ سکتا۔ ہم اکثر لوگوںکو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ’مجھ پر سب سے پہلا حق میرے گھرانے کا ہے‘ یا کسی کو اس فخر کا اظہار کرتے دیکھتے ہیں کہ ’میری وفا اور میرا خلوص سب کچھ اپنے خاندان کے لیے وقف ہے‘۔ اس کے معقول دلائل ہیں۔ خاندان قدیم ترین اور اہم ترین انسانی ادارہ ہے۔ انسان نے اب تک جن تہذیبوں اور ثقافتوں کی تشکیل کی ہے، یہ اْن سب کا سنگِ بنیاد ہے۔ ایسی مؤثر اور گہری محبت اور ایسی غالب وفاداری کے بغیر تہذیبی اقدار، معیارات اور طور طریقے اگلی نسل کو منتقل کیے جاسکتے ہیں، نہ ان کو محفوظ اور برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ کنبے کے بغیر آدمی، آدمی ہی نہیں رہتا، برباد ہوجاتا ہے۔ پھر کنبے کی محبت بھی اللہ کی راہ میں قربان کردینے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے واضح دلائل ہیں:
اوّل: آپ اْس وقت تک اپنی ذات کو اللہ کے سپرد نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی زندگی، آپ کی محبت اور آپ کی وفاداری پر اللہ کا حق سب سے مقدّم اور سب سے اہم حق نہ بن جائے۔ یوں کنبے کا حق اللہ کے حق کا مطیع ہوگا۔ بصورتِ دیگر یہ امکان ہے کہ کنبے کی محبت ایک صاحبِ ایمان کو اللہ کے احکام کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنے پر مائل یا مجبور کردے۔
دوم:کنبہ ہمیشہ سے وہ مضبوط ترین قلعہ رہا ہے جس میں مستحکم اقدار، عقائد، رسوم ورواج اور طرزِ حیات وغیرہ مورچہ بند رہتے ہیں۔ مسلمان بننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں اور اپنے معاشرے میں ایک تبدیلی لانا شروع کرتے ہیں۔ آپ مستحکم بنیادوں پر قائم طرزِ زندگی کو چیلنج کرنا شروع کرتے ہیں اور اْسے اْکھاڑ پھینکنے کا آغاز کرتے ہیں۔ باپ دادا کے طور طریقوں سے بغاوت اور اْن میں تبدیلی لانے کے خلاف پہلی مزاحمت خاندانی محبت کی حدوں کے اندر ہی سے پیدا ہوگی۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔
سوم:جوکچھ آپ کے پاس ہے اْسی کے بل بوتے پر آپ جہاد کا عزم کرتے ہیں۔ آپ کی ہر چیز، بشمول خاندانی محبت کے حق پر، جہاد کا حق دیگر تمام حقوق سے فائق ہونا چاہیے۔ کوئی چیز آپ کو جہاد کے راستے سے منحرف نہ کرسکے۔ خاندانی محبت اگر کوئی رْکاوٹ نہ بنے، تب بھی آپ کو اپنے فرض کی تکمیل کی خاطر کئی طریقوں سے یہ قربانی دینی پڑے گی۔
یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم ہمیں آگاہ کرتا ہے: ’’اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمایش ہیں اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے‘‘۔ (الانفال: 28) اور ہمارے سامنے یہ بنیادی گہرا سوال رکھتاہے کہ تْم کس سے زیادہ محبت رکھتے ہو؟ اللہ سے یا…؟
’’اے نبیؐ! کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جو تْم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ گھر جو تْم کو پسند ہیں، تْم کو اللہ اور اْس کے رسولؐ اور اْس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ (التوبہ: 24)
خاندانی محبت کی قربانی مختلف صورتوں میں دی جاسکتی ہے، اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اور اْس کی رضا کے حصول کی جدوجہد میں کس انداز سے آڑے آتی ہے۔ پہلی مثال یہ ہے کہ خاندانی محبت مطالبہ کرتی ہے کہ والدین، خاندان کے بڑوں، باپ دادا کے طور طریقوں یا رسوم و رواج اور معاشرے کی اطاعت کی جائے۔ اگر ایسی اطاعت اللہ کی اطاعت سے متصادم ہو تو اسے ترک کردینا چاہیے۔ آپ کو اپنی عقل، اپنے ضمیر، اپنے عقیدے اور اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کا کہا ماننا چاہیے:
’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اْن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اْسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟‘‘ (البقرہ: 170)
’’ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر‘‘۔ (العنکبوت: 8)
مزید یہ کہ آپ جن سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کے عقیدے پر ایمان لانے سے انکار کرسکتے ہیں، یا وہ اللہ اور اْس کے کام کی کھلی مخالفت پر اْتر سکتے ہیں۔ ایسے مخالف رشتے دار حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں گے، آپ کا تمسخر اْڑائیں گے اور تضحیک کریں گے، آپ کو ستائیں گے، گھر سے نکال دیں گے اور آپ کو خاندان سے خارج کردیں گے۔ آپ کو ایسے ضرررساں اور مخالف ارکانِ خاندان سے اپنی محبت اور تعلق کے تمام جذبات کی قربانی دینی ہوگی۔ اللہ کی محبت اور اللہ کے دْشمنوں کی محبت ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اْن کی محبت سے مکمل دست برداری جیسی بڑی قربانی دے کر ہی آپ اپنے عقیدے کو اپنے دل میں پختہ کرسکتے ہیں اور اپنا شمار اللہ کی جماعت (حزب اللہ) میں کرواکر اْس کی رضا وخوش نودی اور اْس کی جنت کا انعام حاصل کر سکتے ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیجیے، جو اللہ کی راہ میں قربانی کا نمونۂ کامل تھے۔ سب سے پہلے اْنھیں اپنے والد کو چھوڑنا پڑا، حتیٰ کہ اْن کے لیے دْعاے مغفرت کرنے سے بھی اللہ کے حکم پر دست کش ہوگئے، اور آخرکار اللہ کے حضور اپنے لختِ جگر کا ذبیحہ پیش کرنے کو بھی تیار ہوگئے۔ یا سیدنا لوط علیہ السلام کی مثال لیجیے جنھیں اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنا پڑا، کیوں کہ وہ اْن لوگوں کی ہم درد تھی جنھوں نے سیدنا لوط علیہ السلام کی اْس دعوت پر کان دھرنے سے انکارکردیا تھا جو ایک اللہ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے اْن کودی جارہی تھی۔ پھر رسولؐ کے رفقا رضی اللہ عنہم کی مثال لیجیے، باپ بیٹوں کے سامنے صف آرا تھے اور بیٹے باپ کے سامنے، حتیٰ کہ میدانِ جنگ میں بھی، مگر اْن کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔
وہ لوگ جو ایمان لانے سے محض انکار کرتے ہیں اور مخالفانہ سرگرمیوں میں فعّال نہیں ہوتے، اْن کے معاملے میں آپ کی قربانی کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اْن سے آپ کو اپنی دوستی ختم کردینی چاہیے، لیکن سلوک عادلانہ اور کریمانہ کرنا چاہیے۔ اْلفت و محبت کے تمام تعلقات کا خاتمہ انتہائی اقدام ہے، مگر ان تعلقات سے چھلانگ یک لخت ہی لگانی ہوگی۔ جو لوگ آپ کے عقائد کو پسند نہیں کرتے یا اْن سے اتفاق نہیں رکھتے، اور اس بات کو راز بھی نہیں رکھتے، ایسے اعزہ و اقارب کے ساتھ مستقلاً رہنا آپ کو زیادہ مشکل میں مبتلا کرسکتا ہے اور بہت بڑی قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیوں کہ جب آپ کے عقیدے اور ایمان کو بْرا بھلا کہا جائے گا تو آپ کو شدید اذیت ہوگی اس کے باوجود آپ کو ان کے ساتھ تحمل و برداشت سے پیش آنا ہوگا۔

ضروری نہیں کہ آپ کے اہلِ خاندان آپ کے نصب العین کی مخالفت ہی کریں، یا اس معاملے میں غیر جانب دار رہیں، وہ ہمدرد بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اْن سے محبت کے تقاضوں اور اللہ سے محبت کے تقاضوں میں ٹکراؤ، یا اختلاف پیدا ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتوں میں یہ بات نہ بھولیے کہ خود اچھے مسلمانوں سے محبت بھی بعض اوقات اللہ کی محبت کی راہ سے بھٹکا سکتی ہے، لہٰذا قربانی کی ضرورت وہاں بھی پیش آتی ہے۔
اکثر اوقات آپ کو مختلف اقسام کے نرم و نازک اور لطیف دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان کی مزاحمت کے لیے آپ کو متعدد طریقوں سے مسلسل قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان میں سے تمام صورتیں اتنی سادہ اور واضح نہیں ہوتیں کہ آپ آسانی سے کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔ کبھی ان کی ناپسندیدگی اور نامنظور ی آپ کے سامنے بظاہر یا بباطن بڑے سادہ انداز میں پیش کی جائے گی، مگر اسے بھی رد کرنا ہوگا۔ بعض اوقات التجائیں اور مطالبات پیش کرتے ہوئے محبت کا واسطہ دیا جائے گا، حقوق کا واسطہ دیا جائے گا اور اختیارات کا واسطہ دیا جائے گا، سب کا اسلام سے جواز بھی پیش کیا جائے گا، آپ کو ان سب کا مقابلہ مناسب طریقے سے کرنا ہوگا۔ بیوی بچے محبت اور التفات کے طالب ہوں گے، آپ کو سب میں توازن رکھنا ہوگا۔
ایسی صورت میں آپ کو اْنھیں خوش رکھنے کی ضرورت پر اللہ سے اپنے عہد کو غالب رکھنا ہوگا، اْن کا دِل نہ دْکھائیں، اْنھیں مایوس نہ کریں اور اْن کی اْمیدوں کو رد نہ کریں۔ بصورتِ دیگر آپ کو اْن سے ملنے والی مدد اور تقویت سے دست کش ہوجانا پڑے گا اور اْن کی گرم جوشی اور جذباتی محبت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کو بڑے پیچیدہ فیصلے کرنے ہوں گے کیوں کہ اگر وہ اللہ کے کام میں آپ کی راہ کی رکاوٹ بن گئے تو ایک مقام پر پہنچ کر آپ کو اپنے ان فرائضِِ ذمے داریوں، خدمت گزاری اور اْن کے حکم کی تعمیل سے ہاتھ اْٹھا لینا ہوگا۔