مزید خبریں

فلاحی اداروں کی خدمات

ملک میں بدترین مہنگائی اور بلند افراط زر کے باعث غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والے محنت کش طبقہ کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے مختلف سرکاری فلاحی اداروں کے دائرہ کار کو وسیع اور مؤثر بنایا جائے۔اس مقصد کے لیے محنت کشوں اور ملازمین کی فلاح وبہبود کے لیے قائم کیے گئے قومی اور صوبائی فلاحی اداروں EOBI، WWF اور ایمپلائیز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کے تحت طبی دیکھ بھال، علاج و معالجہ اور نقد مالی امداد کے فوائد اور EOBI کے تحت تاحیات بڑھاپا پنشن، معذوری پنشن اور پسماندگان پنشن، والدین کی پنشن،کمسن بچوں کی پنشن اور WWF کے تحت بچوں کی تعلیم، تعلیمی وظائف، رہائشی سہولیات ،حج بیت اللہ کی سہولت، سلائی مشین کی فراہمی، پیشہ ورانہ کورسز، بچیوں کی شادی کے لئے 4 لاکھ روپے کی گرانٹ اور کارکن کی وفات کی صورت میں 8 لاکھ روپے کی وفات امداد جیسی اہم بنیادی سہولیات کی فراہمی کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کے لیے ان فلاحی منصوبوں کو ہمہ گیر Universal بنایا جائے۔ ان فلاحی اداروں میں ہر برسر روزگار پاکستانی کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے ازخود رجسٹریشن کا نظام بھی متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان فلاحی اداروں کے منصوبوں کے تحت 18 برس کے ہر برسر روزگار پاکستانی کی لازمی رجسٹریشن اور ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے ذریعہ محنت کش طبقہ کے لیے ناگہانی صورت حال میں سماجی تحفظ اور لازمی سماجی بیمہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس وقت ملک کی افرادی قوت تقریباً سات کروڑ کارکنوں پر مشتمل ہے۔ جو جانفشانی اور شب و روز محنت کرکے ملک کی معاشی ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سماجی تحفظ اور لازمی سماجی بیمہ کے قومی منصوبوں میں اس مظلوم طبقہ کی مکمل شمولیت نہ ہونے کے باعث محنت کشوں اور ان کے اہل خانہ کا مستقبل قطعی غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ تمام فلاحی ادارے اپنے قیام کی نصف صدی مکمل ہونے کے باوجود اب تک ملک کی کل افرادی قوت کے محض دس فیصد کارکنوں کو ہی اپنے اداروں میں رجسٹر کرسکے ہیں اور محنت
کش طبقہ کی اکثریت کو سماجی تحفظ کے فوائد اور لازمی سماجی بیمہ کی سہولیات مہیا کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ کروڑوں کارکنوں پر مشتمل افرادی قوت کی کثیر تعداد کی ان تینوں فلاحی اداروں میں رجسٹریشن نہ ہونے کے باعث محنت کش طبقہ اور ان کے اہل خانہ کی اکثریت آج بھی ان فلاحی اداروں کی جملہ سہولیات اور مالی فوائد سے پوری طرح محروم ہے۔ جو فلاحی مملکت کی دعویدار حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ان تینوں فلاحی اداروں کے 50 برس پرانے قوانین اور طریقہ کار وقت گزرنے کے ساتھ بے حد فرسودہ ہوچکے ہیں۔ جنہیں وقت کے تقاضوں کے مطابق ازسر نو تشکیل دینے اور زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ان فلاحی منصوبوں میں شامل کرنے اور انہیں بنیادی سہولیات بہم پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔