مزید خبریں

کرناٹک میں شکست بی جے پی کے لیے دھچکا ہے‘ عوام نے مزید سماجی تقسیم مسترد کردی

کراچی(رپورٹ: حماد حسین)کرناٹک میں شکست بی جے پی کے لیے دھچکا ہے‘ عوام نے مزید سماجی تقسیم مسترد کردی‘ کانگریس کی فتح کو بی جے پی کے زوال کی ابتدا قراردینا قبل از وقت ہے‘ حکمراں جماعت کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا سامنا نہ کرسکی‘ مودی کے لیے شدید مسائل کھڑے ہوئے ہیں‘ راہول گاندھی نے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے ذریعے عوام متحد کیا اور بی جے پی کی کرپشن اور ناقص حکومتی پالیسی کو اجاگر کیا۔ ان خیالا ت کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سربراہ ڈاکٹر عظمیٰ سراج اور ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کی منیجر سدرہ احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا کرناٹک کے انتخابات میں کانگریس کی کامیابی بی جے پی کے زوال کی ابتدا ہے؟‘‘ ڈاکٹر عظمیٰ سراج کا کہنا تھا کہ مئی 2023 ء میں بھارتی ریاست کرناٹک میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حکمران جماعت بی جے پی کی تاریخی شکست نے بھارت کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے لیکن اس کو بی جے پی کے زوال کی ابتدا قراردینا قبل از وقت ہے‘ اگرچہ اس شکست نے حکمران جماعت کے لیے شدید مسائل کھڑے کر دیے ہیں‘ جنوب مغربی صوبے میں یہ کانگریس کی سب سے بڑی فتح ہے۔ کانگرس نے 224 میں سے 135 جبکہ بی جے پی صرف 66 نشستیں جیت سکی۔ انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو دونوں جماعتوں کے انتخابی منشور کو دیکھنا اہم ہوگا۔ بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم میں مودی کی شخصی مقبولیت اور ہندوتوا پالیسی کی حمایت سے 84 فیصد ہندو آبادی والی ریاست میں فتح حاصل کر نے کی کوشش کی۔ بی جے پی حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے سے قاصر رہی کیونکہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر ہر لحاظ سے سوالات پہلے ہی اٹھ رہے تھے۔ خاص طور پر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اقدامات جیسے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی، گائے کی خرید و فروخت اور ذبح پر پابندی کی قانون سازی اور مزید سماجی تقسیم کو کرنا ٹک کے عوام نے مسترد کر دیا۔ دوسری طرف کانگرس نے حکومت کی ناقص کارکردگی، کرپشن اور بیروزگاری جیسے مقامی مسائل کو بنیاد بنا کر انتخابات جیتے۔ اس سال مزید 4 ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ کانگرس کی انتخابی مہم ‘ہندوستان جوڑو تحریک ‘ میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ملک کے طول و عرض میں تقریباً 4 ہزار کلومیٹر کا سفر کیا۔ اس طویل مہم میں راہول گاندھی کو سب سے زیادہ پذیرائی کرناٹک میں ملی جو کہ انتخابی نتائج سے واضح ہو گئی۔ باقی ریاستوں میں کانگریس کو کوئی خاص عوامی پذیرائی نہیں ملی لہٰذا بقیہ صوبوں کے حوالے سے کوئی انتخابی پیش گوئی مشکل ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر عام طور پر مقامی مسائل اور معاملات زیادہ اثر انداز ہوتے ہیںجبکہ لوک سبھا کے انتخابات میں عام طور پر قومی مسائل زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔ راہول گاندھی کی انتخابی مہم کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور بی جے پی کی متضاد معاشی کارکردگی کو سامنے رکھ کر گاندھی اور مودی کا تقابلی جائزہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کانگرس کو پہلی فتح سے حوصلہ ضرور ملا ہے لیکن بقیہ ریاستیں اور مرکز میں اس کو اب بھی سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔اور کرناٹک کی شکست نے بی جے پی کے اعتماد میں کمی بھی کی ہے اور اس کے چیلنجز کو بڑھا دیا ہے۔ سدرہ احمدکا کہنا تھا کہ کرناٹک کے انتخابات میں کانگریس کی جیت نہ صرف بی جے پی کے لیے حیران کن ہے بلکہ یہ حکومتی پارٹی کا کرناٹک پر سن 2019ء سے قائم اقتدار کے لیے بڑا دھچکا بھی ہے۔ عام جمہوری مزاج یہی ہے کہ عموماً طویل عرصے سے قائم حکومتیں عوام میں اپنی مقبولیت اور پذیرائی کھو بیٹھتی ہیں مگر کرناٹک کی ہار کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے۔ کانگریس نے اپنی مخالف پارٹی کے خلاف گزشتہ سال سے ” بھارت جوڑو یاترا” کے ذریعے جو ملک گیر ہم آہنگی کا بیانیہ پھیلایا ہے، بی جے پی اس کا کوئی موثر توڑ کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف مودی کو ایک برینڈ ثابت کرنے کی کوشش میں پیسے اور نمود و نمائش پر کروڑوں روپے خرچ کرنے، مقامی رہنماؤں سے زیادہ مرکزی و امیر ترین رہنماؤں پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں اور بغاوت نے بی جے پی کی انتخابی سرگرمیوں کو نقصان پہنچایا۔ ان سب سے بڑھ کر گزشتہ کئی برس سے جاری نفرت انگیز سیاست اور مذہبی تقسیم کے منصوبوں نے کرناٹک کے عوام کو بی جے پی سے شدید متنفر کردیا ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کے سوشل میڈیا صدر نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ “یہ واضح ہے کہ بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو شکست ہوئی ہے۔” مودی نے ووٹروں کو منقسم کرنے کی کوشش کی جس قدر وہ کر سکتے تھے۔ امت شاہ اور ہمنتا بسوا سرما نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں اقلیتوں کے خلاف اس سے بھی بدتر باتیں کہیں، لیکن وہ بھی ناکام رہے۔ نریندر مودی کے کرناٹک کے پہ در پہ دورے، الیکشن مہم کے دوران اور ٹی وی چینلز پر پاکستان کے حوالے سے جذباتی و ہیجان انگیز بیانات دینے، حجاب و حلال کونٹروورسی، بجرنگ بلی، کامن سول کوڈ، لو جہاد، دی کیرالہ اسٹوری، پولرائز کرنے والا کوئی داؤ کام نہیں آیا۔ یقیناً کرناٹک کے عوام نے مذہبی جنونیت کو دانستہ طور پر خارج کر دیا ہیاور یوں بھارت کی آزادی کے 75 سالہ تاریخ میں تقریباً 55 برس تک حکومت کرنے والی کانگریس، جو گزشتہ10 برس کے دوران کہیں نہیں تھی، ایک بار پھر میدان میں ہے۔گزشتہ برس ستمبر میں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے پیدل مارچ شروع کیا جو 136 روز تک جاری رہنے کے بعد 30 جنوری کو اختتام پذیر ہوا۔ جیسا کہ اس کے نام ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے ظاہر ہے کہ اس کا مقصد لوگوں کے درمیان دوریاں ختم کرنا اور انہیں آپس میں جوڑنا تھا۔ 4 ہزار کلومیٹر کے سفر کے دوران راہل گاندھی 14 مختلف ریاستوں سے گزرے جن میں کرناٹک بھی شامل تھا۔ اس دوران وہ جگہ جگہ رک کر عوام کو یاد دلاتے رہے کہ وہ ملک میں ’نفرت کے خلاف محبت کی دکان کھولنا چاہتے ہیں‘۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے لوگوں کو گانگریس سے اپنائیت کا احساس ہوا۔ انہیں لگا کہ راہل گاندھی مثبت پیغام کے ساتھ خود چل کر ہمارے پاس آئے ہیں لہٰذا ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔