مزید خبریں

تکبیرات و ایام تشریق

قرآن مجید میں ایک مقام فرمایا گیا: ’’اور اللہ کو گنتی کے دنوں میں (جب تم منیٰ میں مقیم ہوں) یاد کرتے رہو‘‘۔ (البقرہ) اور ایک مقام پر فرمایا گیا: ’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تمھارے پاس پیدل آئیں، اور دور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو (لمبے سفر سے) دبلی ہوگئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انھیں عطا کیے ہیں۔ چناں چہ (مسلمانو!) ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ‘‘۔ (الحج)
ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے، یہ مسلمانوں کے لیے خوشی، کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔ سیدنا عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے، رسولؐ نے فرمایا: عرفے کا دن، قربانی کا دن اور ایامِ تشریق ہم مسلمانوں کے لیے عید کے اور کھانے پینے کے دن ہیں۔ (ابوداود)
ایامِ تشریق میں روزہ
چونکہ یہ دن کھانے پینے اور خوشی منانے کے ہیں، اس لیے ان دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیںہے۔ ابوالشعثاءؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایامِ تشریق کے کسی درمیانی دن میں ہم لوگ سیدنا ابن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد کھانا آیا اور لوگ قریب قریب ہوگئے، لیکن ان کا ایک بیٹا ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ ابن عمرؓ نے اس سے فرمایا: آگے ہو کر کھانا کھاؤ! اس نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسولؐ کا ارشاد ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔ (مسند احمد) اور سیدہ ام ہانیؓ کے آزاد کردہ غلام سیدنا ابومرہؓ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمروؓ کے ساتھ ان کے والد سیدنا عمرو بن عاصؓ کے پاس گیا۔ انھوں نے عبداللہ کی طرف کھانا بڑھایا اور فرمایا: کھاؤ! عبداللہ نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ اس پر عمرو بن عاصؓ نے کہا: کھاؤ! کیوں کہ یہ ایسے دن ہیں جن میں رسولؐ نے ہمیں افطار کا حکم دیا اور روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک نے کہا: ان دنوں سے مراد ایامِ تشریق ہیں۔ (ابوداود)
تکبیرِ تشریق کا حکم
9 ذی الحجہ کی نمازِ فجر سے 13 ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرِ تشریق پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ امام ابویوسف اور امام محمدؒ کا یہی مسلک ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ تکبیرِ تشریق ہر مسلمان پر واجب ہے، خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، آزاد ہو یا غلام، جماعت سے نماز پڑھنے والا ہو یا منفرد۔ البتہ ان دنوں کی کوئی نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کے وقت تکبیرِ تشریق پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح پہلے کی کوئی قضا نماز جو کہ واجب الادا تھی، اسے ان دنوں میں قضا کرے، تو بھی تکبیرِ تشریق نہیں پڑھی جائے گی۔ یہ تکبیر مرد متوسط بلند آواز اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں۔ (خلاصۃ الفتاویٰ) بہت سے لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں، یا تو پڑھتے ہی نہیں یا مرد ہو کر آہستہ پڑھ لیتے ہیں، حالانکہ اس کا درمیانی طریقے پر بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے۔