مزید خبریں

وفاقی بجٹ کا چلنا مشکل ہے،خام مال کی دستیابی،ایل سیز کھولنے جیسے مسائل کا حل پیش نہیں کیا

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) وفاقی بجٹ کا چلنا مشکل ہے‘ خام مال کی دستیابی‘ ایل سیز کھولنے جیسے مسائل کا حل پیش نہیں کیا‘ 4000 ارب ٹیکس دینے والے کراچی کے لیے صرف17ارب روپے مختص کیے گئے‘ متعدد اشیا پر ڈیوٹی کا خاتمہ خوش آئند ہے‘ بجٹ نوجوانوں، زراعت، آئی ٹی سیکٹر کے لیے اچھا ہے‘ بجٹ عام انتخابات کے لیے تیار کیا گیا‘ 9200 ارب کے ٹیکس ہدف کا حصول مشکل ہے۔ ان خیالات کا اظہارنائب صدر ایف پی سی سی آئی شبیر منشا چھرا، سابق صدر کے سی سی آئی اے کیو خلیل،ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ،سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر افتخار علی ملک،یونائٹیڈ بزنس گروپ کے صدر زبیر طفیل ، کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر طارق یوسف، بی ایم جی کے وائس چیئر مین ہارون فاروقی، بی ایم جی کے وائس چیئر مین انجم نثار، صدر کراچی چیمبر آف کامرس طارق یوسف، پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل،سرپرست اعلیٰ پی ایف وی اے وحید احمد، سابق صدر ایف پی سی سی آئی زکریا عثمان، سر پرست اعلیٰ پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن جاوید بلوانی اورایف پی سی سی آئی کے سابق صدر میاں ناصر حیات مگوں نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’وفاقی بجٹ برائے-24 2023ء کیسا ہے؟‘‘ شبیر منشا چھرا نے کہا کہ 9200 ارب روپے کے محصولات جمع کرنے کا ہدف انتہائی مشکل ہوگا‘ 5200 ارب روپے تو این ایف سی کی مد میں صوبوں کو دینا ہوںگے‘ حکومت کو محصولات درآمدی اشیا سے حاصل ہوتے ہیں لیکن درآمدکنندگان کو کوئی سہولت نہیں دی گئی، آئی ٹی سیکٹر اور نوجوانوں کے لیے یہ ایک اچھا بجٹ ہے۔ کیو خلیل نے کہا کہ بجٹ میں اہلیان کراچی کے لیے صرف17ارب روپے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے ، 4000 ارب روپے ٹیکس دینے والے شہر کو بجٹ میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ بجٹ میں نوجوانوں کے لیے بہتر مواقع دیے گئے ہیں‘ آئی ٹی سیکٹر کے لیے یہ بجٹ اچھا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 7300 ارب روپے کا سود ادا کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا‘برآمدات بھی نہیں ہو رہی اور نہ صنعتیں چل رہی ہیں جبکہ ملک سے9 لاکھ افراد بیرون ملک چلے گئے، حکومت سپر ٹیکس دوبارہ لے آئی حالانکہ پہلے سے ہی ٹیکس دہندگان پر ٹیکس ادا کرنے کا دباؤ تھا، ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ سے ایک لاکھ روپے بینک سے نکالنے پر600 روپے ادا کرنا ہوگے یہ حکومت نے کوئی کمال کام نہیں کیا، سوال یہ ہے کہ 1150 ارب روپے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ کے لیے کہاں سے آئیں گے ہم تو سال کا آغاز ہی خسارے سے کریں گے۔ افتخار علی ملک نے وفاقی بجٹ کو موجودہ صورتحال میں متوازن، ترقی اور برآمدات پر مبنی بجٹ قرار دیا جس میں ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے پر کشش مراعات دی گئی ہیں۔ انہوں نے کاروبار کرنے میں آسانی کے لیے شاندار اصلاحات کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جن قابل ذکر اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ان سے آنے والے دنوں میں قومی معیشت کو پھلنے پھولنے اور درست سمت متعین کرنے میں مدد ملے گی اور معاشرے کے غریب طبقات کو بھی ریلیف ملے گا‘ معاشی اشاریے بہتر ہوں گے اور بہتر ترسیلات زر کے ساتھ جی ڈی پی کی شرح نمو میں نمایاں بہتری آئے گی۔ زبیرطفیل نے کہا کہ یہ کسی حد تک مناسب بجٹ ہے جب حکومت کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں تو پھر وہ اس سے اچھا بجٹ کیا دے سکتی ہے تاہم اسے ہم الیکشن کا بجٹ بھی کہہ سکتے ہیں، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے ٹیکس ادا کرنے والوں پر بوجھ بڑھا دیا گیا، ایگریکلچر سیکٹر کو کچھ مراعات دی گئیں جو قابل ستائش ہے ‘ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر دباؤ برقرار رکھا گیا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لیا جاتا ہے جو ظلم ہے،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ حکومت کا درست قدم ہے لیکن مزدور کی تنخواہ40ہزار کرنے کی ضرورت تھی،متعدد اشیا پر سے ڈیوٹی کا خاتمہ خوش آئند ہے‘ سولر سسٹم کے لیے کیے اقدامات سے بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘نان فائلرز پر ودہولڈنگ ٹیکس دوبارہ لگایا گیا ہے جس سے حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہوگا،کوکنگ آئل پر سیلز ٹیکس ختم ہونے سے گھی وتیل سستا ہوگا،استعمال شدہ کپڑوں پر ٹیکس کا خاتمہ بہتر فیصلہ ہے اس سے غریب طبقے کو سہولت ملے گی۔ طارق یوسف نے کہا کہ پیش کردہ بجٹ پورے سال کا بجٹ نہیں ہوگا‘ پوائنٹ آف سیل ٹیکس کو 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کیا ہے اس سے حکومتی محصولات میں اضافہ ہوگا۔ ہارون فاروقی نے کہا کہ حکومت کا ٹیکس ہدف 9200 ارب روپے ہے مگر اخراجات اس سے کافی زیادہ ہیں ،سولر انرجی سسٹم پر ٹیکس میں چھوٹ خوش آئند ہے جبکہ حکومت کا پیش کردہ بجٹ ایکسپورٹ سیکٹر کے لیے مفید نہیں ہوگا، بجٹ خوفناک نہیں ہے مگر دل مطمئن بھی نہیں ہے ، کراچی چیمبر کی 50 فیصد تجاویز پر عمل کیا گیا ہے۔ انجم نثار نے کہا کہ زراعت کے شعبے پر بڑا ریلیف دینا ملکی ضرورت تھی جس کو پورا کیا گیا ہے‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں30 سے 35 فیصد کا اضافہ معیشت پر بوجھ بنے گا‘ معاشی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے ایکسپورٹ سیکٹر کا ہدف 30 ارب ڈالر رکھا ہے‘ ایکسپورٹ کو نسل کا قیام بہتر عمل ہے‘ کراچی کی ترقی کے لیے کم از کم100ارب روپے کا ترقیاتی پیکج ہونا چاہیے تھا‘ اوورسیز پاکستانیوں کو ڈالر کے ایکسچینج ریٹ سے فائدہ ہوگا‘ مراعات دینے سے نہیں ، اگلے سال ملکی ایکسپورٹ 30 ارب ڈالر سے کم رہنے کا امکان ہے جبکہ آئندہ سال ایف بی آر کا ہدف بھی پورا نہیں ہو پائے گا۔ طارق یوسف نے کہا کہ ٹیکس فرینڈلی بجٹ نہیں ہے‘ توانائی ٹیرف میں کمی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ بجٹ اور اکنامک سروے میں پیش کیے گئے بہت سے اعداد و شمار زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ موجودہ حالات کی ذمہ داری سابق حکومت کی پالیسیاں،2022ء کا سیلاب، روس، یوکرین جنگ، سیاسی عدم استحکام اور آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں تاخیر ہے جبکہ کچھ قصور موجودہ حکومت کا بھی ہے جس کاذکر نہیں کیا گیا ہے‘ گزشتہ دور حکومت کے مقابلے میں موجودہ دور میں ریونیو کا شارٹ فال بڑھا ہے جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ صنعتی شعبہ میں2.9 فیصد کمی بتائی گئی ہے جبکہ حقیقت میں صرف بڑی صنعتوں کی پیداوار میںگزشتہ 10 ماہ کے دوران 8.1 فیصد کمی آئی ہے۔ وحید احمد نے کہا کہ حکومت نے ایک طرف ٹیکس کم کیا ہے اور دوسری طرف ٹیکس بڑھایا ہے، بجٹ میں زراعت کے شعبے کو درپیش بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعے پیداوار، نئی ورائٹی بڑھانے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے پر توجہ نہیں دی گئی‘ زرعی شعبہ کے لیے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا فنڈ مختص کرنا ضروری ہے‘ زرعی شعبے کو موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا سامنا ہے‘ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے خام مال کی دستیابی، ایل سیز کھولنے اور بلند فریٹ جیسے مسائل کا بجٹ میں کوئی حل نہیں نکالا گیا‘ سرپلس پیداوار کے لیے لاگت میں کمی ضروری ہے۔ زکریا عثمان نے کہا کہ اس بجٹ کا چلنا بہت مشکل ہے۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ حکومت نے اس بجٹ میں ایکسپورٹ بڑھانے کا کوئی فارمولا پیش نہیں کیا، نئے بجٹ میں کوئی خاص اقدامات نظر نہیں آئے۔ ناصر حیات مگوں نے کہا کہ ہمارے نئے مالی سال کی ابتدا ہی قرضے سے ہوگی‘ اگرچہ ٹیکسز تاجر برادری پر تو نہیں لگے مگر وزیرخزانہ ریونیو وصول کرنے کا کوئی ذریعہ نہ بتا سکے، حکومت کو خرچے اور خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضے لینے پڑیں گے، انڈسٹری لگانے کی کوئی ترغیب نہیں دی گئی جہاں سے حکومت کو محصولات ملیںگی۔