مزید خبریں

سیاسی کارکنان کیخلاف ملٹری کورٹس بنانا سول مارشل لا کے مترادف ہے

کراچی (رپورٹ :قاضی سراج) سیاسی کارکنان کیخلاف ملٹری کورٹس بنانا سول مارشل لا کے مترادف ہے‘بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے‘ دستور شکنی تباہی کا راستہ ہے‘ جو قوم عدلیہ کا احترام نہیں کرتی، تباہ ہوجاتی ہے‘ آرمی تنصیب پر حملہ کرنیوالا شخص سیاسی کارکن نہیںہوسکتا بلکہ بھارتی ایجنٹ ہے ‘ ملٹری کورٹس فوج سے وابستہ افراد کو جرائم پرسزا دینے کے لیے ہیں‘ سویلین کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے ایسوسی ایٹ سیکرٹری جنرل، پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن کے مرکزی سینئر نائب صدر وحید حیدر شاہ، آل پاکستان فیڈریشن آف کیمیکل، انرجی، مائنز اینڈ جنرل ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری عمران علی، متحدہ لیبر فیڈریشن کراچی کے سابق جنرل سیکرٹری شاہد غزالی،کوکا کولا بیوریجز کے مزدور رہنما خائستہ رحمن، انٹرنیشنل یونین آف فوڈ پاکستان کے رہنما محمد عثمان، پی آئی اے ایکشن کمیٹی کے صدر محمد عارف خان روہیلہ،EPWA لیڈیز ونگ کی صدر ملکہ افروز روہیلہ، پاکستان اسٹیل کے سابق مزدور رہنما خالد
خورشید، پاکستان اسٹیل کے سابق مزدور رہنما خالد خورشید، واسا حیدر آباد کے رہنما نیاز حسین چانڈیو،پاکستان مزدور اتحاد ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری عبدالستار نیازی، ارشد محمود ایڈووکیٹ، سنوفی ایونٹس کے سابق مزدور رہنما راجا منیر، سرل پاکستان کے مزدور رہنما ظفر اقبال،FPCCI کی رہنما مہزیب خان، پاکستان مزدور محاذکے سیکرٹری جنرل شوکت علی چودھری ، پی آئی اے ریٹائرڈ ایمپلائز کے رہنما سید طاہر حسن، مزدور مددگار آفس شیر شاہ کے رہنما محمد علی ظفر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا سیاسی کارکنوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمات چلنے چاہئیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ سیاسی کارکنوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانا آئین کی خلاف ورزی ہے‘ افواج پاکستان کی تنصیبات پر حملے کیے گئے وہ بھی انتہائی قابل مذمت ہیں‘ فوج اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والے عوامل کا جائزہ لے کر انہیں ترک کرنا ہوگا‘ پاکستان کا آئین مقدس ہے، ہر ایک پر اس کا احترام فرض ہے اور اپنی جان سے بڑھ کر اس آئین کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ سیاسی کارکنوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمات نہیں چلنے چاہئیں‘ یہ بنیادی سیاسی حقوق کے منافی ہے‘ سیاسی کارکنان بھی اپنا احتجاج آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ریکارڈ کروائیں‘ سیاسی طور پر قائم جھوٹے مقدمات سیاسی جدوجہد میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں‘ اگر انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں تو پھر ملک میں ایسے حالات پیدا نہیں ہوتے‘ مزدور تو خود اپنے جائر حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں اس قسم کے کئی ہتھکنڈوں کا شکار بنتے ہیں۔ عمران علی نے کہا کہ سیاسی کارکنوں پر ملٹری کورٹ میں مقدمے نہیں چلنے چاہئیں‘ دستور کے مطابق عمل ہونا چاہیے‘ دستور شکنی ملک کی تباہی کا راستہ ہے۔شاہد غزالی نے کہا کہ سیاسی کارکنان پر ملٹری کورٹس میں مقدمات بالکل نہیں چلنا چاہئیں جو قوم یا اس کے حکمران عدلیہ کا احترام کھو بیٹھتے ہیں وہ تباہ ہوجاتے ہیں‘ عدلیہ کے نظام کو بہتر کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہر گز نہیں کی جائے۔ خائستہ رحمن نے کہا کہ فوجی عدالتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ محمد عثمان نے کہا کہ جب ملک میں ایک آئینی عدالتی نظام موجود ہو تو کسی دوسرے نظام کی گنجائش نہیں رہتی۔ محمد عارف خان روہیلہ نے کہا کہ سیاسی کارکنان پر ملٹری کورٹس میں مقدمے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں قانون و آئین کی کوئی حکمرانی نہیں۔ ملکہ افروز روہیلہ نے کہا کہ جب بھی احتجاج اور مظاہروں کا موقع آتا ہے، کارکنان اپنی حدیں پار کر جاتے ہیں‘ایسے ہی ناعاقبت اندیش کارکنان پر ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانے کی بات ہو رہی ہے لیکن یہ غلط ہے کیونکہ اس طرح تو پھر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہاں سول مارشل لا نافذ ہے۔ خالد خورشید نے کہا کہ اگر ملٹری کورٹس کا جواز ہے بھی تو صرف محکمے سے وابستہ افراد کے ان جرائم کی حد تک ہے جن کا تعلق محکمہ جاتی ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ہو۔ اس کے علاوہ سویلین جن میں سیاسی کارکن بھی شامل ہیں ان کے کیسز کی سماعت عام عدالتوں میں کی جائے۔ نیاز حسین چانڈیو نے کہا کہ سول عدالتوں میں مقدمات چلانے چاہئیں۔ عبدالستار نیازی نے کہا کہ جو بھی شخص فوجی تنصیب پر حملہ آور ہو وہ سیاسی ورکر نہیں ہوسکتا بلکہ وہ بھارتی ایجنٹ ہے‘ اس کے خلاف مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جائے۔ارشد محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ ایک انتہائی غیر مناسب اور غیر قانونی اور جمہوری اقدار اور آئین پاکستان کے تحت حاصل حقوق کے منافی قدم ہے۔ راجا منیر نے کہا کہ سیاسی کار کنان پر مقدمات صرف سول کورٹ میں ہی چلنے چاہئیں۔ ظفر اقبال نے کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے کیسز بھی ملٹری کورٹس میں ہی چلیں گے۔ مہزیب خان نے کہا کہ معاشرے میں کبھی بہتری نہیں آئے گی جب تک قانون سب کے لیے ایک نہیں ہوگا اس کے بغیر انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے ؟ شوکت علی چودھری نے کہا کہ سیاسی کارکنان کسی بھی سیاسی جماعت اور معاشرے کا حسن ہوتے ہیں‘ علم و شعور بانٹنے والوں اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمات نہیں چلائے جائیں۔ سید طاہر حسن نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث مجرموں کے مقدمات سول عدالتوں میں چلائے جائیں۔ محمد علی ظفر نے کہا کہ جو مقدمات پی ٹی آئی کے کارکنان پر بنے ہیں انہیں اصولی طور پر فوجی عدالتوں میں نہیں چلنا چاہیے۔