مزید خبریں

خدمتِ خلق کا تصور

اجتماعی اور منظم کام کرنے سے مراد محض قربانی کی کھالیں جمع کرنا نہیں ہے۔ ہم نے اس کو اتنا ضروری سمجھ لیا ہے کہ بہت سے مقامات پر جہاں قربانی کی کھالیں جمع نہیں ہوتی ہیں وہاں صرف اسی وجہ سے شعبہ خدمت خلق نہیں پایا جاتا۔ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں وہی معنی بیٹھتے ہیں جو آدمی آنکھوں سے دیکھتا یا کانوں سے سنتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں خدمت خلق سے فوری طور پر شفاخانے اور چرم ہاے قربانی جمع کرنے کا تصور سامنے آتا ہے۔ خدمت خلق کا ایک جامع تصور ہے۔ یہ بھی اللہ کی بندگی اور عبادت کی طرح ایک فریضہ ہے جس میں ہر ایک کو حصہ لینا چاہیے۔ بعض کاموں کو منظم طور پر کرنے کے لیے شعبے قائم ہو سکتے ہیں اور مل جل کر کام کرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے منصوبے بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے بہت سے کام ہیں جو سب خدمت خلق کی تعریف میں آئیں گے۔ مثال کے طور پر وہ سب کام جن سے:
٭لوگوں کے مسائل حل ہوں‘
٭بھوکوں کو کھانا پہنچے‘
٭یتیموں کو سہارا ملے‘
٭جن لوگوں کی گردنیں غلاموں کی طرح لوگوں کے ہاتھوں میں پھنسی ہوئی ہوں‘ ان کی گردنیں آزاد ہو جائیں‘
٭جن مقروض افراد کی گردنیں قرض کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہوں‘ ان کے سر سے قرض کا بوجھ اْتارا جا سکے‘
٭بے روزگاروں کو روزگار مل جائے۔
یہ سب اس طرح کے کام ہیں جو مل جل کر منظم طور پر کیے جانے چاہییں۔ جو کام اکیلے اکیلے ہوتے ہیں‘ اگر مل جل کر کیے جائیں تو 10 گنا زیادہ کام ہو سکتا ہے۔ جب لوگ مل کر بیٹھتے ہیں تو گروہ بناتے ہیں‘ تنظیم بناتے ہیں۔ تنظیم بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایک اور ایک مل کر 11 ہو جائیں۔ ایک اور ایک مل کر دو کی کوششیں دو کے برابر نہ ہوں بلکہ 11 کی کوششوں کے برابر ہو جائیں‘ تب تنظیم کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ جو چیز اضعافًا مضاعفًا‘ یعنی کئی گنا بڑھتی ہے وہ مل جل کر کام کرنے سے بڑھتی ہے۔ لیکن مل جل کر کام کرنے کو ہی اصل کام سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ہم نے گھر پر بیٹھ کر خیرات کر دی اور لوگوں کو پوچھ لیا۔
یہ ضروری ہے کہ لوگ جمع ہوں‘ مل کر بیٹھیں‘ اہل محلہ کو جوڑیں‘ دوسروں کو بلائیں اور مل جل کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر سب مل کر یہ کام کریں تو یہی کام کتنا زیادہ پھیل سکتا ہے۔ اپنے اپنے محلّے میں کچھ لوگ کھڑے ہو جائیں اور دیکھیں کہ کون لوگ ضرورت مند ہیں‘ کون لوگ حاجت مند ہیں اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اس کے بعد جو لوگ ان کی ضرورتیں پوری کر سکتے ہوں‘ ان سے رابطہ کرلیاجائے اور انھیں ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے کمزور بھائیوں کی امداد کریں۔ اس تھوڑے سے کام سے بڑی برکت ہوگی اور بڑا کام ہوگا۔
لوگ تو تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی مستحق ملے اور وہ اس کی مدد کر سکیں۔ اگر گائوں محلّے کے معتبر لوگ کھڑے ہوں‘ جو کہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ فلاں یتیم ہے‘ بیوہ ہے اور وہ امداد کے مستحق ہیں تو اسی گائوں اور محلّے سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو خوشی سے آگے بڑھ کر یہ کام کریں گے۔ ہر گائوں اور محلّے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مال دار اور غنی ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تک پہنچا جائے اور ان سے مال لے کر اسی بستی کے فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ دین میں خدمت کا بھی یہی اصول ہے کہ بستی میں جو لوگ صاحب ثروت ہوں‘ مال دار ہوں‘ ان سے وصول کر کے محتاجوں اور فقرا میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ کام زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ زکوٰۃ لے کر اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ہم کو مستحق نہیں ملتے۔ اگر لوگوں سے صرف رابطہ کروا دیا جائے تو وہ امداد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
آج بھی مسلمانوں کے اندر بعض چیزوں کے بارے میں راسخ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ ’’نیکی کا کام‘‘ ہے‘ مثلاً یتیم خانہ بنانا‘ کنواں کھدوانا‘ مسجد بنانا وغیرہ۔ اس حوالے سے مسلمان کے دل میں بڑا نرم گوشہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس نے دْنیا میں مسجد بنائی اس نے جنت میں گھر بنایا۔ لوگ تعمیر مسجد کے لیے دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے کسی شہر میں چلے جائیں‘ اچھی اچھی عالی شان مسجدیں ملیں گی۔ ان کی تعمیر میں باہر سے ایک پیسہ بھی نہیں لگا ہوتا‘ سب کچھ مسلمانوں نے اپنی جیب سے دیا ہوتا ہے۔ وہ اس کام کے لیے پیسہ دیتے ہیں‘ لاکھوں لگاتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ اس میں اجر و ثواب ہے اور صحیح جگہ پیسہ لگ رہا ہے۔ اسی طریقے سے کنواں کھدوانا ہے۔ یہ بھی ایک ایسا کام ہے کہ مسلمان جانتا ہے کہ یہ بڑے ثواب کا کام ہے۔ مسلمان سبیل بہت لگاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں پیاسے کو پانی پلانا بڑے ثواب کا کام ہے۔
اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ اس سارے کام کے اندر اگر کوئی اجر ہے تو وہ صرف اس صورت میں کہ یہ سارے کام صرف اللہ کے لیے کیے جائیں۔ اگر یہ کام اس لیے کیے جائیں کہ لوگ ہمارے شکرگزار ہوں‘ ہمارے ممنون ہوں‘ دعوت میں ہمارا ساتھ دیں‘ ہمیں ووٹ دیں… ممکن ہے کہ یہ سارے فوائد حاصل ہوجائیں‘ ممکن ہے نہ ہوں‘ لیکن اجرضائع ہو گیا۔ اس لیے کہ اجر تو صرف اس صورت میں ہے کہ نیت یہ ہو:
’’ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں‘ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘ ہمیں تو اپنے ربّ سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا‘‘۔ (سورۂ الدھر:9-10 )
اگر ہماری نیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جو کچھ خدمت کرتے ہیں‘ کھانا کھلاتے ہیں‘ مسکرا کے بات کرتے ہیں اور کھجورکا ٹکڑا نکال کے دیتے ہیں‘ یہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت میں نجات کے لیے ہے تو اجر ہے… اگر نیت یہ ہوگی تو دوسرے فوائد بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اور اگر نیت یہ نہیں ہوگی تو آپ بیٹھ کے بار بار یہ الزام دیتے رہیں کہ ہم نے تو اتنا کام کیا لیکن اس کے باوجود لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیتے‘ دوسروں کو دیتے ہیں۔ یہ تجربہ جو آپ کو ہوتا ہے‘ اور بار بار ہوتا ہے کہ لوگ بات نہیں سنتے‘ ہمارا ساتھ نہیں دیتے‘ ہمارے لیے کھڑے نہیں ہوتے‘ یہ بھی نیت کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ آپ کی نیت ا س کے علاوہ کچھ نہیں ہونی چاہیے کہ صرف اللہ کو خوش کرنا ہے۔ ہمارا کسی پر کوئی احسان نہیں ہے جو اس پر جتانا ہو یا ہم پر کوئی احسان نہیں ہے جو اتارنا ہو۔ صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی مقصود ہونی چاہیے۔