مزید خبریں

خاتونِ جنت: سیّدہ فاطمہؓ

سیدہ فاطمہؓ تمام عورتوں کی سردار، نبی کریمؐ کی جگر گوشہ اور نسبتِ مصطفائی، سید الخلق رسولؐ اللہ کی صاحبزادی اور حضراتِ حسنینؓ کی والدہ ہیں۔ آپؓ کے متعلق رسولؐ کا ارشاد ہے کہ ’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔ (بخاری،مسلم) نیز وہ خود روایت کرتی ہیں کہ رسولؐ نے اپنی وفات کے وقت مجھے یہ بشارت دی کہ ’تم جنّتی عورتوں کی سردار ہو، سوائے مریم بنتِ عمران کے۔ (ترمذی)
’فاطمہ‘ آپؓ کا نام اور ’زہرا‘ اور ’بتول یہ دو آپ کے لقب تھے۔ سیّدہ کو بتول اس لیے کہا جاتا ہے کہ بتول ’بتل‘ بمعنی قطع سے مشتق ہے کہ اپنے فضل و کمال کی وجہ سے دنیا کی عورتوں سے منقطع تھیں، یا یہ کہ ما سواے اللہ منقطع اور علاحدہ تھیں اور بوجہ باطنی زہرت و بہجت و صفا و نورانیت ’زہرا‘ کہلاتی تھیں۔ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ آپؓ بعثت کے پہلے سال میں پیدا ہوئیں۔ ابن جوزی کہتے ہیں کہ بعثت سے پانچ سال پیش تر پیدا ہوئیں، جب کہ قریش خانۂ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ آپؐ کی تمام صاحب زادیوں میں سیدہ فاطمۃ الزہرا سب سے چھوٹی ہیں، سب سے بڑی سیدہ زینب، پھر رقیہ، پھر ام کلثوم، پھر فاطمہؓ ہیں۔ سواے سیدہ فاطمہؓ کے اور کسی صاحب زادی سے آپؐ کی نسل کا سلسلہ نہیں چلا۔ 2ھ میں سیدنا علیؓ کے ساتھ سیدہ فاطمہ کا نکاح ہوا۔ پہلے قول کی بنا پر سیدہ فاطمہ اس وقت پندرہ سال اور ساڑھے پانچ مہینے اور دوسرے قول کی بنا پر انیس سال اور ڈیڑھ مہینے کی تھیں۔ (سیرۃ المصطفیٰ)
شادی شدہ زندگی
سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علیؓ سے ہوا اور نکاح کے بعد رسمِ عروسی کا وقت آیا تو آپؐ نے سیدنا علیؓ سے کہا کہ ایک مکان لے لیں، چنانچہ حارث بن النعمان کا مکان ملا اور سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ اس میں قیام کیا۔ آپؐ ہمیشہ سیدنا علی اور فاطمہؓ کے تعلقات میں خوش گواری پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ جب کبھی علی اور فاطمہؓ میں خانگی معاملات کے متعلق رنجش ہو جاتی تھی تو آپؐ دونوں میں صلح کرا دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ آپؐ گھر میں تشریف لے گئے اور صلح وصفائی کرادی، گھر سے مسرور نکلے، لوگوں نے پوچھا آپ گھر میں گئے تھے تو اور حالت تھی، اب آپ اس قدر خوش کیوں ہیں؟ فرمایا: میں نے ان دو اشخاص میں مصالحت کرا دی جو مجھ کو محبوب ہیں۔
اولاد و واقعۂ وفات
سیدہ فاطمہؓ کی پانچ اولادیں ہوئیں، تین لڑکے اور دو لڑکیاں۔ حسن، حسین، محسن، ام کلثوم، زینب۔ محسن تو بچپن ہی میں انتقال کر گئے، سیدہ ام کلثوم سے سیدنا عمرؓ نے نکاح فرمایا اور کوئی اولاد نہیں ہوئی اور سیدہ زینب کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے ہوا اور ان سے اولاد ہوئی۔ آپؐ کی وفات کے چھے مہینے بعد ماہِ رمضان 11ھ میں سیدہ فاطمہ زہرا نے انتقال فرمایا۔ سیدنا عباسؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور علی، عباس اور فضل بن عباسؓ نے قبر میں اتارا۔ انتقال کے وقت سیدہ فاطمہؓ کی عمر 29 سال تھی، ویسے سن کی تعیین میں سخت اختلاف ہے۔
باپ بیٹی کا تعلقِ خاطر
سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک روز سیدہ فاطمہؓ آئیں، ان کی چال رسولؐ کی چال کی طرح تھی۔ رسولؐ نے فرمایا: بیٹی خوش آمدید! اس کے بعد آپؐ نے ان کو اپنی داہنی طرف یا اپنی بائیں طرف بٹھا لیا، پھر آہستہ سے کوئی بات کہی، تو وہ رونے لگیں۔ میں نے ان سے پوچھا: تم روتی کیوں ہو؟ پھر ایک بات ان سے آپؐ نے آہستہ سے کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔ میں نے کہا: آج کی طرح میں نے خوشی کو رنج سے اس قدر قریب نہیں دیکھا! میں نے دریافت کیا: آپؐ نے کیا فرمایا تھا؟ سیدہ فاطمہؓ نے کہا: میں رسولؐ کے راز کو افشا کرنا پسند نہیں کرتیں۔
جب رسولؐ کی وفات ہوگئی تو میں نے سیدہ فاطمہؓ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ: آپؐ نے پہلی مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا کہ جبرئیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن کا دَور کیا کرتے تھے، اس سال انھوں نے مجھ سے دو بار دور کیا ہے۔ اس سے میرا خیال ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا اور تم میرے تمام گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی تو یہ سن کر میں رونے لگی، پھر دوسری مرتبہ فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمام جنتی عورتوں کی یا تمام مومنات کی سردار ہوں گی، اس وجہ سے مجھے ہنسی آگئی۔ (بخاری، مسلم)
سہل بن سعدؓ سے رسولؐ کے غزوۂ احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا: رسولؐ کا چہرۂ اقدس زخمی کیا گیا اور آگے سے ایک دانت ٹوٹ گیا اور خود آپؐ کے سر مبارک میں ٹوٹ گئی تھی۔ سیدہ فاطمہؓ خون دھوتی تھیں اور علی بن ابی طالبؓ ڈھال میں پانی لا کر ڈال رہے تھے، جب فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی سے خون میں کمی نہیں بلکہ زیادتی ہو رہی ہے، تو انھوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا، یہاں تک کہ راکھ بن گئی پھر اسے زخم پر لگا دیا جس سے خون رک گیا۔ (مسلم، بخاری)
سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ مرض کی زیادتی سے بے ہوش ہوگئے۔ سیدہ فاطمہؓ نے روتے ہوئے کہا: افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے ! آپؐ نے فرمایا: آج کے بعد پھر نہیں ہوگی۔ جب آپؐ کی وفات ہوگئی تو سیدہ فاطمہؓ یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ کو اللہ نے قبول کرلیا ہے، اے میرے والد آپ کا مقام جنت الفردوس ہے، اے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبرئیل کو سناتی ہوں۔ جب آپؐ کو دفن کیا جا چکا تو سیدہ فاطمہؓ نے [غم سے نڈھال ہو کر] سیدنا انسؓ سے کہا: تم لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسولؐ کو مٹی میں چھپا دو۔ (بخاری)
سیدنا علیؓ سے روایت ہے، رسولؐ نے سیدہ فاطمہؓ کو جہیز میں ایک کالے رنگ کی چادر اور ایک مشک اور ایک تکیہ دیا، اس تکیے میں اذخر (عرب میں پیدا ہونے والی) ایک قسم کی گھاس بھری ہوئی تھی۔ (نسائی، ابن ماجہ) اس روایت سے بعض لوگ جہیز کا جواز ثابت کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں، جب کہ یہ انتظام اس لیے فرمایا گیا کہ سیدنا علیؓ‘ رسولؐ کے زیرِ تربیت و پروردہ تھے، اس لیے بیٹی بیاہتے وقت پدرانہ فکر وشفقت کے باعث آپؐ نے یہ مختصر اشیا عنایت فرمائیں اور دوسری بیٹیوں کے معاملے میں اس طرح کا کوئی خاص اہتمام نہیں فرمایا گیا۔ نیز اگر اس روایت سے جہیز کا جواز ثابت ہو جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو مختصر چیزیں والد اپنی استطاعت کے مطابق اپنی خوشی سے بیٹی کے نکاح میں دینا چاہے وہ کافی ہے، اس سے مزید اشارۃً، کنایۃً یا صراحتاً کسی قسم کا مطالبہ کرنا ہرگز درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے، اب تو مسلم معاشرے میں جہیز اس طرح دھڑلے سے لیا دیا جانے لگا کہ باقاعدہ کسی ڈیل کی طرح پوچھا جاتا ہے کہ تم بیٹی کے نکاح میں کیا کچھ دوگے!