مزید خبریں

آخری عشرۂ رمضان کے فضائل

اسلام کی پانچ بنیادی تعلیمات میں توحید، نماز، زکوٰۃ اور حج کے ساتھ ماہ رمضان کے روزوں کا بھی شمار ہے۔ ماہ رمضان بڑی فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اہل ایمان کی طرف اللہ تعالی کی خصوصی رحمتیں متوجہ ہوتی ہیں۔ احادیث و آثار میں رمضان شریف کے بڑے فضائل اور برکات مذکور ہیں۔ احادیث کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک پر خصوصی رنگ غالب ہے۔ سیدنا سلمان فارسیؓ سے روایت میں ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا۔ (صحیح ابن خزیمۃ ، حدیث 1780، بیہقی شعب الایمان)
یوں تو رمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں (آخری عشرے) کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی اکرمؐ رمضان کے آخری عشرے میں عبادت وطاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ احادیث میں ذکر ہے، ام المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ آخری عشرے میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، حدیث 2009) سنن ابن ماجہ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں آپؐ کے معمولات دیگر ایام کے مقابلے میں بڑھ جاتے تھے۔
دیگر احادیث میں آپؐ کے معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث میں عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو نبیؐ رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمر کس لیتے اور اپنے گھر والوں بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری ، حدیث :1884، صحیح مسلم، حدیث :2008) شعب الایمان بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے بستر پر نہیں آتے تھے۔ (حدیث:3471)
راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپؐ کا تو ہمیشہ ہی تھا، لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کے لیے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے۔ یہ مضمون عائشہؓ کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبیؐ نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں۔ (سنن نسائی ،حدیث : 1336)
دوسرا خصوصی معمول جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ ہے اپنے اہل خانہ کو رات میں عبادت کے لیے جگانا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ اپنے گھر والوں کو سارا سال ہی جگایا کرتے تھے، لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ جگانے کے ذکر کا صاف مطلب یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں نبیؐ اپنے گھروالوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
اعتکاف: مسجد میں بہ نیت عبادت قیام
رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔آپؐ کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے۔ سیدنا ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپؐ رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (بخاری، حدیث: 1885) صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبیؐ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔ (بخاری، حدیث : 1886) سیدنا ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرمؐ ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری، حدیث: 1903)
آخری عشرے کا اعتکاف (یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام) سنت علی الکفایہ ہے۔ اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلے والوں کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ طاعات میں مشغول رہے اور کسی شدید طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نہ نکلے۔ اعتکاف کی حقیقت خالق ارض و سماء اور مالک الملک کے دربار عالی میں پڑجانے کا نام ہے۔ اعتکاف، عاجزی و مسکنت اور تضرع و عبادت سے اللہ کی رضا و خوشنوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اعتکاف دراصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمؐ آخری عشرے کا اعتکاف خاص طور پر لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرمؐ آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ (صحیح بخاری ،حدیث : 1880)
سیدنا ابوسعید خدریؓ کی روایت میں تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبیؐ نے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا اور ہم نے بھی اعتکاف کیا۔ جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو جس کی تلاش ہے وہ آگے ہے۔ چناں چہ آپؐ نے دوسرے عشرے کا بھی اعتکاف کیا اور ہم نے بھی کیا۔ پھر جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ مطلوبہ رات ابھی آگے ہے۔ چناں چہ آپؐ بیسویں رمضان کی صبح کو خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا اسے چاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے۔ مجھے شب قدر دکھائی گئی جسے بعد میں بھلادیا گیا۔ یاد رکھو لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں ہے۔ (صحیح بخاری ، حدیث: 771)
لیلۃ القدر: ہزار مہینوں سے بہتر رات
رمضان المبارک کے آخری عشرے کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورۃ نازل فرمائی، ارشاد ہوا: ’’ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبریل) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے‘‘۔ (سورۃ القدر97:1-5)
ایک دوسری آیت میں اس کو مبارک رات کہا گیا ہے، ارشاد ہے: ’’ قسم ہے اس کتاب کی جو حق کو واضح کرنے والی ہے۔ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے‘‘۔ (سورۃ الدخان 44:2)
شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی کم و بیش تراسی سال) کی عبادت سے زیادہ ہے۔ نیز، اسی رات اللہ تعالی نے قرآن مجید کو یکبارگی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا اور پھر اس کے بعد نبوت کی23 سالہ مدت میں حسب ضرورت نبیؐ پرنازل ہوتا رہا۔ انھیں آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو ملائکہ نزول کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تکمیل کرتے رہیں۔ اس رات میں فرشتوں کا نزول بھی رحمت و برکت کا سبب ہوتا ہے۔
لیلۃ القدر کا مطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیتوں اور فضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدر وشان والا ہوگا۔ تو اللہ تعالی نے اس رات کی جلالت ومنزلت اور مقام ومرتبے کی بنا پراس کا نام لیلۃ القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں اس رات کی بہت قدر ومنزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمارآیات و احادیث سے ثابت ہے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے ، ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جو شخص شب قدر کو ایمان اور اجر وثواب کی نیت سے عبادت کرے، اس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1768)
سیدنا انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’یہ مہینہ (رمضان کا) تم کو ملا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا، اور اس کی خیر وبرکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث : 1634، معجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 1500)
مسلمانوں کو ترغیب و تاکید ہے کہ وہ اس رات کو اللہ تعالی کی عبادت کریں، رات کو دعا و عبادت اور ذکر وتلاوت میں گزاریں۔ نبی اکرمؐ اسی مبارک رات کی تلاش کے لیے اعتکاف فرماتے تھے اور رمضان کے آخری عشرے میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ نبی اکرمؐ کی ذات گرامی سید الرسل اور محبوب رب العالمین تھی، وہ اللہ کے نزدیک مقبول اور بخشے بخشائے تھے، لیکن پھر بھی اللہ کی رضا کی تلاش میں آپ اتنی جدوجہد فرماتے تھے۔ آپؐ کی ذات گرامی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کے ہم بہت زیادہ محتاج ہیں۔ لہٰذا، ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہیے اور آخری عشرے کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہیے۔
اس رات کو رمضان اور خاص کر اس کے آخری عشرے میں تلاش کرنا مستحب ہے۔ سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرمؐ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1880) اور ابن عباسؓ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرو، باقی نو رہ جائیں تو ان میں، باقی سات رہ جائیں تو ان میں، باقی پانچ رہ جائیں تو ان میں۔ (صحیح بخاری، حدیث : 1881) پھر احادیث کی روشنی میں شب قدر کے آخری عشرے میں بھی طاق راتوں میں وقوع کا زیادہ امکان معلوم ہوتا ہے۔ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1878) جب کہ بعض احادیث میں ستائیسویں رات کو شب قدر ہونے کی بات بھی وارد ہوئی ہے۔ جیسا کہ سیدنا معاویہؓ کی روایت میں ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے۔ ( سنن ابوداود ، حدیث : 1178، مسند احمد وغیرہ)
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرمؐ سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبیؐ نے فرمایا: ’’اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی‘‘ (اے اللہ! تو معاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کو پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کردے)۔ (سنن ترمذی ، حدیث : 3435، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ وغیرہ)
محدثین و علماء فرماتے ہیں کہ شب قدر سے متعلق روایات کثرت سے مروی ہیں اور ان کے مجموعے سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے، اور طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستائیسویں رات میں اور زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں مصلحت و حکمت سے شب قدر کو مخفی رکھا ہے۔ اس کو مخفی رکھنے میں شاید ہماری طلب اور ذوق جستجو کا امتحان مقصود ہے۔ اگر کوئی شخص خلوصِ نیت اورصدقِ دل سے کوشش کرے، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو، تو ان شاء اللہ وہ محروم نہیں رہے گا۔ اہل ذوق کے یہاں تو سارا معاملہ ذوقِ طلب اور شوقِ جستجو ہی کا ہے، بقول وحشت کلکتوی؎
نشانِ منزلِ جاناں ملے ملے، نہ ملے
مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجو میرا
nn