مزید خبریں

فیکٹری مالکان کا کم تنخواہ دینے کی وجہ خواتین کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہے

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) فیکٹری مالکان کا کم تنخواہ دینے کی وجہ خواتین کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا ہے‘حکومتی عدم توجہ کے باعث خواتین کی تنخواہ وکوٹا کم اور ڈیوٹی ٹائمنگ زیادہ ہے‘ سستا مزدور سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے‘ خواتین لیبر قوانین سے ناواقف ہیں‘ خواتین پر ذہنی و جسمانی تشدد بھی کیا جاتا ہے ‘عالمی صنفی تفاوت کی سطح پر پاکستان کا نمبر 143 واں رہا۔ ان خیالات کا اظہار پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان اے بی سی کے مرکزی سینئر نائب صدر وحید حیدر شاہ،IUF سائوتھ ایشیا کے ڈائریکٹر قمر الحسن ،جماعت اسلامی سندھ سیکرٹری اطلاعات مجاہدچنا ،سینئر جرنلسٹ شہر بانو، سیسی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری وسیم جمال، پی آئی اے ایکشن کمیٹی کے صدر محمد عارف خان روہیلہ، فضل منان باچا ایڈووکیٹ ، فری لانسرملکہ افروز روہیلہ، فری لانس صحافی جہاں آرا ، فری لانس صحافی شازیہ انور اور فری لانس صحافی،پی ایچ ڈی ریسرچر فرحانہ نیازی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ملازمت پیشہ خواتین کو تنخواہ کم کیوں دی جاتی ہیں؟‘‘ وحید حیدر شاہ نے کہا کہملازمت پیشہ خواتین کو بعض اداروں میں تنخواہ اس لیے کم دی جاتی ہے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ملازمت کرتی ہیں اور مالکان ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ اکثر خواتین لیبر قوانین سے ناواقف ہوتی ہیں‘ اکثر خواتین اپنے گھر کے مردوں کا مالی معاملات میں ہاتھ بٹانے کے لیے ملازمت کرتی ہیں اور انہیں جو بھی تنخواہ ملے اسی کو غنیمت جان کر شکر ادا کرتی ہیں۔ قمر الحسن نے کہا کہ پاکستان کی معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے ساتھ مرد و خواتین کی اجرتوں میں فرق کے لحاظ سے بھی پاکستان 145 ممالک میں سب سے نیچے ہے۔ خواتین سے ملازمتوں اور اجرتوں میں تفریق دراصل ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے اٹھنے والی آواز کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ مجاہدچنا نے کہا کہ سرمایہ دارنہ نظام استحصالی نظام ہے جو اس کا حصہ بنے گا اس کا استحصال لازمی ہے‘ خواہ وہ کم تنخواہ کی صورت میں ہویا کسی اور شکل میں‘ یہ سارا مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے سب کو معاشی دوڑ میں لگا دیا ہے‘ کیامرد، کیا عورت، کیا بچے اب تو سارا گھر اس دوڑ میں شامل نظر آتا ہے۔ سستا مزدور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی ضرورت رہا ہے۔ دنیا میں کوئی تحریک کوئی بڑی جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں خواتین شامل نہ ہوں،ہرکامیاب مردکے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘اسلام میں عورت کوماں، بہن، بیٹی غرض یہ کہ ہر حیثیت میں اعلیٰ مقام عطا کیا گیاہے‘ عورت گھر اور کھیت سے لے کر کارخانوں تک حسب حال اپنی خدمات سرانجام دیتی ہے مگر اسے کم تنخواہ دینا یاکمترسمجھنا افسوس ناک امر ہے۔ شہر بانو نے کہا کہ کارخانوں اور تعلیمی اداروں میں ملازمت پیشہ خواتین کی تنخواہیں کم ہیں، مرد اور خواتین کو مساوی تنخواہ دی جائے۔ وسیم جمال نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی تفاوت کی درجہ بندی کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افسوس ناک نتائج دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس رپورٹ میں 144 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا اور صنفی تفاوت کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 143 واں رہا۔ رپورٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم دنیا بھرمیں صنفی عدم مساوات بالخصوص اجرتوں کے حوالے سے کہاں کھڑے ہیں‘حکومت اور سول سوسائٹی کو اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مرد و خواتین ذہنی اور تکنیکی طور برابر ہیں۔ لہٰذا ان کومساوی اجرتیں بھی برابر ملنی چاہئیں۔ محمد عارف خان روہیلہ نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جاتی‘ بہت کم اداروں میں خواتین کا کوٹارکھا جاتا ہے‘ خواتین میرٹ پر ملازمت حاصل بھی کرلیں تو بھی ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ تنخواہ مردوں کے برابر نہیں دی جاتی ہیں جبکہ خواتین ملازم زیادہ ذمہ داری اور پابندی سے اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔ خواتین کو کم تنخواہ دینے کی وجہ آجر حضرات کی نظر میں خواتین کی فطری کمزوری اور کام کی رفتار کہی جاتی ہے جو سراسر غلط ہے۔ فضل منان باچا ایڈووکیٹ نے کہا کہ خواتین سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ کا م لیا جاتا ہے‘ ان کے ساتھ ذہنی و جسمانی تشدد بھی ہوتا ہے‘ اس دور میں جب مرد مزدوروں کا شدت سے استحصال کیا جاتا ہے۔ اس دوران خواتین دگنے استحصال کا شکار ہیں۔ ان کے ڈیوٹی کے اوقات بھی قانون کے مطابق نہیں۔ ملکہ افروز روہیلہ نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین گزشتہ3،4 دہائی سے مسائل کا شکار ہیں وہ مردوں کی طرح تمام امتحانات اور مراحل سے گزر کر روزگار حاصل کرتی ہیں لیکن اجرت کے حوالے سے انہیں کبھی بھی مردوں کے مساوی تنخواہیں یا حقوق نہیں دیے جاتے جبکہ آئین کی رو سے خواتین کے لیے ملازمت کے اوقات کار اور چھٹیوں کے قوانین میں نرمی کی گئی ہے لیکن اس نرمی کی بنیاد پر تنخواہوں میں کمی یا کٹوتی کا کوئی اختیار آجر کے پاس نہیں۔ جہاں آرا نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں خواتین کا استحصال کیا جا رہا ہے‘ تعلیمی شعبہ میں تمام تر اہم ذمہ داریاں خواتین اساتذہ کے ذمے ہوتی ہیں اورزیادہ تنخواہوں سے مرد حضرات مستفید ہو رہے ہوتے ہیں‘ حکمران خواتین کے استحصال کو روکیں۔ شازیہ انور نے کہا کہ فیکٹریوں میں خواتین کو بہت کم مشاہرہ دیا جاتا ہے۔ فرحانہ نیازی نے کہا کہ زیادہ تر اداروں میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے اور تنخواہ کے ساتھ ساتھ قابلیت ہونے کے باوجود عہدہ بھی عموماً چھوٹا ہی دیا جاتا ہے جبکہ کام مردوں کے برابر لیا جاتا ہے۔