مزید خبریں

مہنگائی ،استحصال اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے مزدوروں کیلیے روٹی کا حصول مشکل بنادیا

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) مہنگائی ، استحصال اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے مزدور کے لیے روٹی کا حصول مشکل بنا دیا‘ عوام ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کو تیار نہیں ‘مڈل کلاس انقلاب کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ آج تک مزدوروں کے لیے کوئی فنانس اسکیم متعارف نہیں کرائی گئی‘ ریاست کی ترجیحات میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کبھی نہیں رہی‘ بڑی تعداد میں مزدور ہوٹلوں سے کھانا کھاتے ہیں‘ اب روٹی کی قیمت 20 روپے اور 25 روپے کی ہے‘ ایک پلیٹ دال کی قیمت 100 روپے کی ہے‘ روٹی آٹے سے تیار ہوتی ہے‘ اب صورت حال یہ ہے کہ اگر مزدور گھر میں بھی کھانا کھائے تو آٹا دستیاب نہیں‘ گزشتہ دنوں میرپور خاص اور لاہور میں مزدور صرف سستا آٹا لینے کے لیے انتقال کرگئے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل شوکت علی چودھری، متحدہ لیبر فیڈریشن KPK کے صدر محمد اقبال،عورت فائونڈیشن کی رہنما مہناز رحمن، سیسی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری وسیم جمال،جامعہ کراچی کے استاد حافظ سلمان نوید،محکمہ محنت سندھ کے سابق جوائنٹ ڈائریکٹر لیبر گلفام نبی ،پاکستان اسٹیل کے سابق مزدور رہنما محمد محسن اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج ایمپلائز یونین CBA کے جنرل سیکرٹری محمد شاہد منشی نے جسارت کے اس سوال پر کیا کہ’’مزدور کے لیے روٹی کا حصول کیوں مشکل ہوگیا؟‘‘ شوکت علی چودھری نے کہا کہ مزدور کے لیے روٹی کا حصول مشکل ہونے کی وجوہات میں سر فہرست دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور ان کی محنت کا استحصال ہے‘ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں پاکستان اگر سر فہرست نہیں تو پہلے نمبروں پر ضرور ہے کہ یہاں دولت مندوں کو مزید دولت کمانے کے تمام تر مواقع میسر ہونے کے ساتھ ساتھ نہ تو ان کی آمدنی و دولت پر حکومت پورا ٹیکس لیتی ہے اور نہ ہی ان کی کمائی کے ذرائع پر کوئی پوچھ کی جاتی ہے‘ اگر کھیت میں کسان کی حالت کو دیکھا جائے تو وہ فیکٹری مزدور سے بھی بد تر ہے‘ کسان جاگیردار اور وڈیرے کے ظلم و ستم کو بھی برداشت کرتا ہے اور اپنی محنت کے استحصال کو بھی۔ جب تک دولت کو منصفانہ بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جائے گا اور مزدور کو خواہ وہ فیکٹری ورکر ہو یا کھیت میں کام کرنے والا کسان اس کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں دیا جائے گا تب تک مزدور کے لیے روٹی کا حصول مشکل سے مشکل تر ہی رہے گا۔ محمد اقبال نے کہا کہ روز بروز بڑھتی ہوئی لاقانونیت، بدامنی اور ہوشربا گرانی نے جینا محال بنایا ہے‘ غریب کی زندگی تو بالکل اجیرن ہو گئی‘ اس کا ایک ہی علاج ہے انقلاب‘ اور انقلاب کے راستے میں بڑی رکاوٹ یہ مڈل کلاس ہے‘ جب تک یہ بیچ میں سے نہیں نکلتا‘ انقلاب ناممکن ہے اور یہ بات خوش آئند لگ رہی ہے کہ تیز رفتار مہنگائی کے آگے اس کلاس کا ٹھہرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے‘ یہ کلاس جب لوئر کلاس میں تبدیل ہوگی تو پھر اَپر کلاس سے یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے‘ یہ بھوک افلاس اَپر کلاس کی پیدا کردہ ہے‘ 2 فریقی جنگ کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے‘ یہ مڈل کلاس بیچ میں ایک دیوار کے مانند ہے ‘ چاہیے تو یہ کہ یہ درمیانہ طبقہ نچلے طبقے کو اٹھانے کے لیے آواز اٹھائے ورنہ یہ خود بھی منہ کے بل گرنے والا ہے۔ مہناز رحمن نے کہا کہ جب تک ہم سرمایہ دارانہ اور نیو لبرل ازم کے اسیر رہیں گے‘ مٹھی بھر سرمایہ دار اور جاگیر دار اسی طرح اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے اور لوگ بھوکے مرتے رہیں گے‘ ہمیں ایک فلاحی ریاست کی ضرورت ہے جو شہریوں کو بنیادی سہولیات مہیا کرے‘ فی ا لوقت صحیح اقتصادی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ امیروں پر ڈائریکٹ ٹیکس لگائے جائیں‘ غریبوں کے کھانے پینے کی اشیا پر کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے‘ حکومت کے ماہرین اقتصادیات کو عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائیں۔ وسیم جمال نے کہا کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ریاست پاکستان کی ترجیحات میں مزدوروں کی فلاح و بہبود نہیں رہیہے‘ پاکستان میں محنت کشوں کے لیے حکومت صرف ایک کام کیا کرتی ہے کہ کم از کم اجرت کا اعلان کردیتی ہے جس پر کبھی بھی مکمل عملدرآمد نہیں ہو پاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک مزدوروں کے لیے کوئی فنانس اسکیم متعارف نہیں کرائی گئی جس کے تحت اسے کوئی حکومتی یا کمرشل بینک کم از کم اجرت کی بنیاد پر قرض ہی فراہم کرتا ہو‘ حکومت صرف مزدور پیشہ افراد کے لیے راشن ڈپو کا انتظام کرے۔ جہاں پر وہ ای او بی آئی کارڈ، سوشل سیکورٹی یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ دکھا کر آٹا یا بنیادی ضروریات کی اشیا رعایتی قیمت پر حاصل کرسکیں‘ اس طرح فوری طور پر اس مسئلہ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حافظ سلمان نوید نے کہا کہ موجودہ دور حکومت میں مزدور بری طرح پس کے رہ گیا ہے‘ نہ صرف مزدوروں کا جینا بلکہ کھانا پینا بھی محال ہوگیا ہے‘ مہنگائی کی وجہ سے یوں تو تمام اشیا کے دام بڑھ گئے ہیں مگر اب تو حد ہی ہوچکی ہے کہ آٹے جیسی نعمت کو بھی غریب مزدور سے چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ بڑھتی ہوئی آٹے کی قیمتوں کو روکے‘ آٹا اور روٹی اگر یوں ہی مہنگی اور مارکیٹ سے غائب ہوتی رہی تو نہ صرف مزدور کے گھر کا چولہا بجھ جائے گا بلکہ جرائم میں بھی اضافہ ہو گا۔ گلفام نبی نے کہا کہ آج مزدور کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے‘ موجودہ حکومت نے مزدور کو جو دال روٹی مل رہی تھی وہ بھی بند کرادی ہے حالات بہت نازک ہوگئے ہیں۔ اللہ حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ مزدور کے لیے کچھ کریں۔ محمد محسن نے کہا کہ روزی کمانا اور کھانا مشکل ہوگیا ہے‘ پیاز 200 سے 250 روپے کلو مل رہی ہے‘ مزدور کس طرح سے سالن پکائے گا‘ حکمران تو چور چور کی رٹ لگا رہے ہیں‘ انہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں‘ ان حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں‘ ظلم کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کرتے اور نہ ہی مزدور انقلاب کے لیے بڑھتے ہیں۔ حکمران بے لگام گھوڑے کی طرح ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے غیر ملکی مدد آئی تو رقم تو حکمرانوں نے کھالی اور سامان وڈیروں اور اعلیٰ سرکاری حکام نے رکھ لیا۔ محمد شاہد منشی نے کہا کہ مزدور کے لیے روٹی کا حصول ہمیشہ سے ایک مشکل مرحلہ رہا ہے لیکن آج سے پہلے یہ اتنا بھی مشکل نہ تھا۔ جتنا کہ آج مشکل ہوگیا ہے ‘ہمارے ملک میں ہر 5 سال بعد حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں جب تک سارے مزدور مل کر اچھی حکومت نہیں لائیں گے تب تک حالات ایسی ہی رہیں گے ‘مزدوروں کو ان کا جائز حق صرف اور صرف جماعت اسلامی دلا سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی کرپشن نہیں ہے اور نہ ہی یہ کرپشن کرتی اور نہ کرنے دیتی ہے۔