مزید خبریں

باجماعت نماز

نماز اور باجماعت نماز مسلمان کی لازمی ڈیوٹی ہے، اسے بلا رخصت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ آدمی دین کی کتنی ہی نفلی خدمت کر لے، اس سے فرض معاف نہیں ہو سکتا۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘۔ (سورہ البقرہ) نماز کا حکم اور اس کا فرض ہونا تو لفظ وَاَقِیمْوا الصَّلٰوۃَ سے معلوم ہوچکا تھا، اس جگہ مَعَ الرّٰکِعِین کے لفظ سے نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جمہور امت، علما وفقہا، صحابہ وتابعین کے نزدیک جماعت سنتِ موکدہ ہے، مگر سننِ موکدہ میں سنتِ فجر کی طرح سب سے زیادہ موکد اور قریب بہ وجوب ہے۔ (معارف القرآن)
اور بلا شرعی عذر مسجد میں حاضر نہ ہونے پر رسولؐ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ نماز کا حکم دوں اور جماعت کھڑی ہو تو میں اْن لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے اور اْن کے گھروں کو جلا دوں۔ (بخاری، مسلم)
سیدنا ابن ام مکتومؓ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں نابینا ہوں اور میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد میں لانے والا بھی کوئی نہیں ہے، تو کیا ایسی صورت میں میرے لیے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟ آپؐ نے پوچھا: کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ انھوں نے کہا: جی۔ آپؐ نے فرمایا: تب میں تمھارے لیے رخصت نہیں پاتا۔ (ابوداؤد)
صحابہ کرامؓ کے دور میں جماعت کا اس قدر اہتمام کیا جاتا تھا کہ کْھلے منافق کے سوا کوئی مسجد کی جماعت نہ چھوڑ سکتا تھا۔ عبداللہؓ فرماتے ہیں، جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ وہ کَل اسلام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے، اْس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ساری نمازوں کی حفاظت کرے، جہاں سے انھیں پکارا جاتا ہے، (یعنی مسجد میں)۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیؐ کے لیے ہدایت کے طریقے متعین کر دیے ہیں اور یہ نمازیں بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو، جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں پڑھتا ہے، تو تم نے اپنے نبیؐ کے طریقے کو چھوڑ دیا۔ اور اگر تم اپنے نبیؐ کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو گم راہ ہوجاؤ گے۔ جب کوئی شخص پاکی حاصل کرے، پھر مسجدوں میں سے کسی مسجد کی طرف جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اْس کے ہر قدم پر ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجے کو بلند کرتا اور اس کے ایک گناہ کو مٹا دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ منافق کے سوا کوئی بھی نماز سے پیچھے نہیں رہتا تھا، بجز اس کے کہ جس کا نفاق ظاہر ہوجاتا اور ایک آدمی جسے دو آدمیوں کے سہارے لایا جاسکتا تھا، اْسے بھی لا کر صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا۔ (مسلم)
باجماعت نماز کا ثواب
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسولؐ نے فرمایا: جماعت کی نماز اپنے گھر کی نماز اور بازار کی نماز سے پچیس درجے افضل ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی اچھی طرح وضو کر کے مسجد میں محض نماز ہی کے ارادے سے آئے تو وہ جو بھی قدم رکھتا ہے، اْس پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو نماز میں (ہوتا) ہے، جب تک کہ نماز کے لیے مسجد میں رہے فرشتے اْس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس جگہ رہے جہاں نماز پڑھے۔ (فرشتے کہتے ہیں) اے اللہ! اسے بخش دے! اے اللہ! اس پر رحم کر! (یہ سلسلہ اْس وقت تک جاری رہتا ہے) جب تک اْس کا وضو باقی رہے۔ (بخاری، مسلم)
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ نے فرمایا: جماعت کی نمازکا تنہا پڑھی جانے والی نماز سے ستائیس درجے زیادہ ثواب ہے۔ (بخاری، مسلم)
جماعت جتنی بڑی ہوتی ہے، اس پر ثواب اتنا ہی زیادہ ملتا ہے۔ قباث بن اشیمؓ فرماتے ہیں، رسولؐ اللہ نے فرمایا: دو آدمی اس طرح نماز پڑھیں کہ ایک دوسرے کی امامت کرے، یہ اللہ کے یہاں اس سے افضل ہے کہ چار آدمی اکیلے اکیلے نماز پڑھیں اور چار آدمیوں کی نماز جب ان میں سے ایک امامت کرے، اللہ کو زیادہ پسند ہے آٹھ آدمیوں کے اکیلے اکیلے نماز پڑھنے سے، اور آٹھ آدمیوں کا مِل کر نماز پڑھنا، جب کہ ان میں سے ایک امامت کرے یہ اللہ کے یہاں زیادہ افضل ہے سو آدمی کے اکیلے اکیلے نماز پڑھنے سے۔ (شعب الایمان، بیہقی )
مسجد پہنچ کر معلوم ہو کہ جماعت ہو چکی:
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسولؐ نے فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کر کے مسجد کے لیے نکلے اور جب وہاں پہنچے تو دیکھے کہ لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے بھی اتنا ہی ثواب دیں گے جتنا اس شخص کو ملا ہے، جس نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہو اور جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ (ابوداؤد)