مزید خبریں

رخصت و عزیمت

رخصت وعزیمت خاصا مشکل موضوع ہے۔ اس لیے کہ رخصت و عزیمت کا معاملہ اس طرح واضح اور متعین نہیں ہے جس طرح کہ حلال و حرام واضح اور متعین ہیں، بلکہ یہ ان دونوں کے درمیان ایک وسیع میدان ہے جس کا تعین ترجیحات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
رخصت کا پہلو
اگر رخصت کا پہلو لیا جائے تو کئی باتیں سامنے آتی ہیں: یہ کہ یہ دور دین پر چلنے کے لیے ایسا دور ہے، جس کے بارے میں وہ حدیث نبویؐ صادق آتی ہے کہ جب کسی ایک حکم پر عمل کرنا، اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ پکڑنے کے مترادف ہوگا۔ دوسری طرف وہ بہت ساری احادیث ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ، آسانی پیدا کرو، سختی نہ کرو (یسر وا ولا تعسّروا)‘ یا یہ فرمایا گیا ہے کہ دین آسان ہے، (الدین یسر)۔ اسی طرح قرآن کی وہ آیات بھی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو زینتیں انسان کے لیے اتاری ہیں، ان کو حرام کرنے والا کون ہے۔ اب، جب کہ اللہ کے دین پر چلنا ایسا ہے جیسا کہ کانٹوں پر چلنا‘ اور اس کے احکام پر عمل کرنا اس طرح ہے جیساکہ اپنے ہاتھ میں انگارہ پکڑ لینا، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ساری واضح ہدایات موجود ہیں، جن میں کہا گیا کہ دین آسان ہے اور آسانی پیدا کرو، تو خیال آتا ہے کہ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ لوگوں کو اس راستے کی طرف بلایا جائے جو کہ آسانی کا راستہ ہو، اور جس پر چل کر آسانی کے ساتھ اللہ کے دین کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
عزیمت کا پہلو
دوسری طرف اگر عزیمت کا پہلو لیا جائے تو خیال آتا ہے کہ ہمارا گروہ تو ایک ایسا گروہ ہے، جو وہ کام کرنے چلا ہے جو کام انبیاے کرامؑ نے انجام دیا تھا۔ اس کی خاطر انھوں نے ہر قسم کی قربانی دی۔ وہ آگ میں ڈالے گئے، آروں سے چیرے گئے، ان کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، پتھر برسائے گئے، ان پر طرح طرح سے تشدد کیا گیا، جسموں کو داغا گیا، طعنے دیے گئے، تمسخر کا نشانہ بنایا گیا، تذلیل کی گئی، گھر سے بے گھر کر دیا گیا‘ مال و اسباب سے محروم کر دیا گیا لیکن وہ اپنے مقام پر ثابت قدم رہے۔
پھر خیال آتا ہے کہ ہماراگروہ تو وہ گروہ ہے، جو یہ عزم لے کر اٹھا ہے کہ ساری دنیا کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف لے کر آنا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ کام شیروں کے کرنے کا کام ہے۔ اگرچہ بظاہر ہمارے دلوں میں کتنے ہی امراض کیوں نہ پیدا ہو چکے ہوں اور ہماری زندگیوں میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ کام کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے یہ سوچا کہ آپ کو عزیمت کی دعوت دوں، اس لیے کہ یہی راستہ شیروں کا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ ہے جو دنیا کو بدلنے کا عزم لے کر کھڑے ہوتے ہیں، اور دنیا کو بدل ڈالتے ہیں۔تاہم‘ جب میں نے بحیثیت مجموعی تحریک کا جائزہ لیا اور عزیمت کی کسوٹی پر پرکھا تو مجھے بڑی شرم آئی کہ میں اس مقام پر کھڑے ہو کر، یہ کہوں کہ آپ سب لوگ رخصت کی راہ چھوڑ کر عزیمت کا راستہ اختیارکریں۔
ہم دنیا اور خاص طور پر مسلم دنیا میں دین حق کا یہ حال دیکھتے ہیں کہ مسلمان ایک ارب سے زائد ہونے کے باوجود عزت سے محروم اور ذلت سے ہم کنار ہیں اور خون مسلم پانی کی طرح ارزاں ہے۔ برسوں سے دنیا کے مختلف حصوں میں، بے شمار افراد اس عزم کا اعلان کر رہے ہیں کہ اللہ کے دین کی سر بلندی ان کا مقصد زندگی ہے، یہ ان کی ساری تگ ودو کا نصب العین ہے اور اس کے باوجود کہ ان کے قدم آگے بڑھے ہیں، مگر وہ ابھی تک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکے ہیں۔ اسلام موجود ہے، اس کے نام لینے والے موجود ہیں، اس کے لیے تقریریں کرنے والے بہت ہیں‘ اس پر کتابوں کی نکاسی بھی کم نہیں ہے، لیکن ہر طرف اپنوں کی چیرہ دستی، اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے پورا جسد مسلم زار زار اور فگار فگار ہے۔ ایسے میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ گروہ، مختصر اور مٹھی بھر گروہ جوان حالات میں اس عزم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے کہ اللہ کے دین کو زمین پر دوبارہ غلبہ اور عزت حاصل ہو، اور مسلمان قوم ایک بار پھر غلامی کے بجاے ہادی اور امام بن کر کھڑی ہوجائے، یہ وقت کا تقاضا بھی ہے اور عزیمت کی راہ بھی، لہٰذا اس کے لیے سواے عزیمت اور عظمت کی راہ کے اور کوئی راہ نہیں ہے۔
جب میں نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ رخصت کی بات کرنا آپ جیسے گروہ کے مناسبِ حال نہ ہوگا تو پھر میں نے یہ سوچا کہ عزیمت کی بات کس انداز اور کس پیرایے میں کروں؟ اس لیے کہ زمانہ بڑا نازک ہے، اور ہرطرف انسان اپنے آپ کو مشکلات کے اندر گھرا ہوا محسوس کرتا ہے، مصالحت اور مفاہمت کا دور دورہ ہے، قدم قدم پر ایسی پرکشش چیزیں ہیں جو نگاہ کو کھینچتی ہیں، جہاں قدم پھسلنے لگتے ہیں اور آدمی کا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہیں بیٹھ جائے۔