مزید خبریں

شاہ ولی اللہؒ اور ارتفاقات

عروج و ترقی کے اسباب کو سمجھنے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا ’ارتفاقات‘ کا تصور بھی بہت مددگار ہے۔ یہ بحث شاہ صاحبؒ نے ’حجۃ اللہ البالغہ‘ میں بھی کی ہے، لیکن ’البدورالبازغہ‘ میں زیادہ گہرائی، تفصیل اور علمی اسلوب سے بحث لائی گئی ہے۔ ارتفاق کی اصطلاح کو شاہ صاحبؒ نے جن معنوں میں استعمال کیا ہے اسے ہم سماجی تعاون کے مراحل (socialness of stages) یا سماجی تدابیر کے درجے کہہ سکتے ہیں۔ مل جل کر رہنے کی صلاحیت انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک انسان کی افضلیت کے تین اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ انسان رائے کلی کے تحت کام کرتا ہے اور چیزوں اور واقعات کے فوری نتائج پر ہی نہیں بلکہ عواقب پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ دوسرے ظرافت یعنی تمام امور میں سلیقہ مندی، لطافت، زیبائش اور ذوق جمالیات سے کام لیتا ہے۔ اور تیسرے یہ کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل کے لیے اور ایجاد و اکتساب کے لیے مختلف علوم حاصل کرتا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ایک اور جگہ انسان کی برتری کا اصل سبب ’قوت عقلیہ کی زیادتی‘ اور ’قوت عملیہ‘ کی برتری کو قرار دیا ہے۔
انسانی سماجوں کی ترقی دراصل انھی تین خصوصیات کی ترقی ہے۔ جیسے جیسے ان میں ترقی ہوتی جاتی ہے انسانی سماج ’ارتفاق‘ کے ایک مرحلے سے اگلے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ پہلا مرحلہ (ارتفاق اول) انسان کی بالکل ابتدائی (primitive) زندگی ہے جس میں وہ زراعت کرتا ہے اور دوسرے انسانوں سے مل کر اپنے بعض کام انجام دیتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں (ارتفاق ثانی) ایک منظم سماج وجود میں آتا ہے اور روایات، طور طریقوں، آداب وغیرہ کے ذریعے سے سماجی زندگی متعین ہوتی ہے۔ شاہ صاحبؒ نے اس مرحلے کی پانچ خصوصیات پر بہت خوب صورت روشنی ڈالی ہے۔ معاشی خصوصیات (حکمت معاشیہ) یعنی معاشی زندگی کے ترقی یافتہ طور طریقے اس مرحلے میں رواج پاتے ہیں۔ صنعتی خصوصیات (حکمت اکتسابیہ) یعنی صنعتیں ترقی کرتی ہیں اور ایجاد و اکتساب سے زندگی کو آسان بنانے کی جستجو ہوتی ہے۔ خاندانی خصوصیات (حکمت منزلیہ) یعنی ازدواجی زندگی، ولادت، گھر، ملکیت اور حقوق وغیرہ کے سلسلے میں مہذب اور شائستہ طریقوں کا رواج ہوتا ہے۔ آپسی لین دین اور باہمی تعاون کی خصوصیات (حکمتِ تعاملیہ اور حکمت تعاونیہ) یعنی مل جل کر ایک دوسرے کو فائدہ اٹھانے اور ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرنے کے زیادہ ترقی یافتہ اور متمدن طریقے ایجاد ہوتے ہیں اور معاشرے میں عام ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب کے نزدیک یہ وہ قوتیں ہیں جو انسان کو آگے بڑھاتی ہیں۔
ارتفاق ثالث سیاست و حکومت سے متعلق ہے اور ارتفاق رابع کا مطلب ایک عالمی حکومت کا یا کنفیڈریشن کا تصور ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک ایک ارتفاق کی تکمیل کے بعد ہی دوسرے ارتفاق کی طرف پیش قدمی ہونی چاہیے۔ مثلاً معاشی خود کفالت کے بغیر (جو ارتفاق ثانی سے متعلق ہے) اگر سیاست و انتظام کے عزائم پیدا ہوجائیں (جو ارتفاق ثالث سے متعلق ہے) تو ایسے لوگ کرپٹ ہوجاتے ہیں اور سیاست کو اپنی معیشت کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں جس سے فتنے پیدا ہوتے ہیں۔