مزید خبریں

سانحہ مشرقی پاکستان اور ابلاغی محاذ

محمودؔ ریاض الدین
کنٹرولر نیوز (ریٹائرڈ)ریڈیوپاکستان اسلام آباد
ایوب خان کے جانے کے بعد یحیٰی خان کے دور میں ملک کی چوٹی کی قیادت اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھی ہو چکی تھی کہ اسے ملک کی سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مکتی باہنی کے ہاتھوں ہونے والے ہزاروں معصوم مرد، عورتوں اور بچوں کے قتل عام کی کسی کو پرواہ نہیں تھی۔جنرل یحییٰ خان ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں یہ باور کرایا گیاتھا کہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی پارٹی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔دوسری طرف شیخ مجیب اپنی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے اور انہوں نے اپنی سیاسی جنگ میں تمام ہتھیار استعمال کیے۔ انہوں نے اپنا وقت اور پراپیگنڈہ مکمل طور پر مشرقی پاکستان کیلئے وقف اور مرکوز کر رکھا تھا۔انہوں نے اپنے ہر جلسے میں مغربی پاکستانیوں اور بہاریوںکو’’شالا پنجابی‘‘ پکار کرہد ف تنقید بنا رکھا تھا اور مشرقی پاکستان کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی قرار دیتے ہوئے بنگالیوں میں احساس محرومی کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے صدر یحییٰ خان اور ان کے رفقاء کو شیشے میں اتار رکھاتھا اور ان سے ہر قسم کے جھوٹے سچے وعدے کر رہے تھے۔چنانچہ یحییٰ خان یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ شیخ مجیب جو اپنے ہر سیاسی جلسے میں چھ نکات کی گردان جاری کھے ہوئے ہیں ، اب ان سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔دوسری طرف بھٹو تھے جنہوں نے غریب اور امیر طبقے کے درمیان فرق کو اجاگر کرکے ’’روٹی، کپڑا اور مکانــ ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں مغربی پاکستان پر مرکوز کررکھی تھیں۔ اس طرح شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقارعلی بھٹو دونوں کی علاقائی سوچ مرکزگریز رحجانات کو فروغ دے رہی تھیں جو قومی و ملکی یکجہتی کیلئے زہر قاتل تھی۔چنانچہ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں اور بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں مکمل طور پر علاقائی جما عتیں بن کر ابھریں اور دونوں نے یحییٰ خان پراقتدارکی منتقلی کیلئے زور دینا شروع کردیا۔عوامی لیگ اکثریتی پارٹی تھی اورلیگل فریم ورک آرڈر کے تحت اقتدار اسے منتقل ہونا تھا اور صدر یحییٰ خان نے انہیں مستقبل کا وزیراعظم بھی قرار دے دیا تھا لیکن بھٹونے ملک میں دو وزرائے اعظم کی انوکھی تجویز دے ڈالی جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی، یحییٰ نے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ڈھاکہ اور لاڑکانہ کے متعدد دورے کیے لیکن دونوں سیاسی رہنما کسی سمجھوتے پر راضی نہ تھے اور اسی اثناء میں صدر نے 3مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا اور رد عمل میںبھٹو نے اس اجلاس میں شرکت کرنے والوں کو ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دیتے ہوئے انہیں’’یکطرفہ ٹکٹ‘‘ لے کر جانے کو کہا۔
کسی بھی بحران یا ناگہانی پر قابو پانے میںقومی ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہوتا ہے۔1965ء کی جنگ میں ریڈیوپاکستان نے قوم کو ایک لڑی میں پرو دیاتھا اور مختلف ریڈیو سٹیشنوں پر تعینات ملک کے ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے سٹاف نے ابلاغی محاذپراپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔
1971ء کے بحران سے پہلے مشرقی پاکستان میں کم از کم سات ریڈیو اسٹیشن کام کررہے تھے۔ان میں سے دو اسٹوڈیوز پر مشتمل ڈھاکہ ریڈیوسٹیشن 16 دسمبر 1939ء کو پرانے شہر میں کرائے کی ایک عمارت (موجودہ شیخ برہان الدین پوسٹ گریجویٹ کالج) میں قائم کیا گیا تھا اور یہ قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مسلم ریاست کے حصہ میں آنے والے تین ریڈیواسٹیشنوں میں سے ایک تھا۔ جبکہ دوسرے دو ریڈیو سٹیشن مغربی پاکستان میں لاہور اور پشاور میں قائم تھے۔
ڈھاکا ریڈیوکا افتتاح غیرمنقسم بنگال کے وزیراعلیٰ شیر بنگال اے کے ٖفضل الحق نے کیا تھا جبکہ سری تری لوچن بابو ڈھاکا ریڈیو کے پہلے براڈکاسٹر اور معروف سنگر لیلا ارجمند بانو نے جن کی عمر اس وقت دس سال تھی، افتتاحی تقریب میں اپنی پہلی پرفارمنس دی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ایوب حکومت نے 8 فروری 1960ء کو شاہ باغ میں چھ اسٹوڈیوز پر مشتمل ایک جدید براڈکاسٹنگ ہاؤس تعمیر کیا۔1970ء میں شیخ مجیب الرحمٰن نے ڈھاکہ ریڈیو سے ہی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا تھا۔1954ء میں ریڈیوپاکستان چٹاگانگ اور ریڈیوپاکستان راجشاہی نے کام کرنا شروع کردیا تھا جبکہ ایوب دورحکومت میں سلہٹ میں 1961ء، صاوار میں 1963 ء اور رنگپور میں 1967ء میں اپنی نشریات کا آغاز کرچکے تھے۔ کھلنا ریڈیو سٹیشن کی عمارت اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں تھی کہ ایوب حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ تاہم 1970ء میں کھلنا ریڈیو سے نشریات کا آغاز ہوچکاتھا۔
ایوب حکومت نے اپنی ”روزگار دہلیز پر” پالیسی کے تحت مشرقی پاکستان کے تمام ریڈیوسٹیشنوں پر مقامی عملے کو بھرتی کیا تھا اور سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب میں سے ایک ان ریڈیوسٹیشنوں پر سوائے چند ایک کے تمام عملے کا بنگالی ہونا بھی تھا۔ بنگالی عملے نے شورش شروع ہونے سے پہلے ہی وہاں موجودمغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان چند افراد کو ہراساں کرنا شروع کردیا تھا اور عملاًوہاں باغی قابض ہوچکے تھے۔
7 مارچ 1971ء کوپاکستان آرمی نے شیخ مجیب الرحمٰن کو ڈھاکاریڈیو پر تقریرکرنے کی اجازت دینے سے انکار ر دیا تو تمام آرٹسٹوں، آفیسرز اور سٹاف ممبران نے ٹرانسمشن کا بائیکاٹ کردیا اور وہ اسٹیشن سے چلے گئے۔ تاہم اگلے روز صبح آٹھ بجے شیخ مجیب کو تقریر کرنے کی اجازت دے دی گئی
26مارچ 1971ء کوڈھاکا ریڈیو سے”اعلان آزادی” نشر ہوا جسے چٹاگانگ کی بندرگاہ پر موجود ایک جاپانی جہاز نے مانیٹر کرکے دوبارہ نشر کردیا اور یوں دنیامشرقی پاکستان میں جاری شورش کی سنگینی سے آگاہ ہوئی اور یہ مشرقی پاکستان کی صورتحال کے تناظر میں بھارت کے پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا نقطہ آغاز بھی تھا۔اس طرح وہی ڈھاکہ ریڈیو جس سے 15 اگست 1947ء کواسلامیان برصغیر کی انگریزوں سے آزادی اور ہندو بنیے کے استحصال سے نجات کا اعلان ہوا تھا اور جس نے قیام پاکستان کے بعد منتشر مسلمانوں کو نئی مملکت میں جسد واحد کی مانند ایک قوم بنانے میں نمایاں کردار اداکیاتھا اور 1965ء کی جنگ میں صوتی محاذ پر بھارت کے خلاف فرنٹ لائن قلعے کے طور پر ابھرا تھا، 26 مارچ 1971ء کو زمین بوس ہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان اسی دن ہوگیا تھا جس دن باغی گروپ نے ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے ”اعلان آزادی” نشرکیا تھا۔
کسی بھی ملک کاابلاغ عامہ کا ریاستی ادارہ اس کا پہلا دفاعی حصار ہوتا ہے اور اس کی نشریات کو درست اور قابل اعتماد گردانا جاتا ہے۔چنانچہ پاک فوج نے ڈھاکا ریڈیواسٹیشن پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرلیا – تاہم باغی گروپ نے آزاد بنگال ریڈیو کے نام سے متوازی نشریات شروع کردیں اور شدید گولہ باری کی وجہ سے اس ریڈیوا سٹیشن کو باربار مختلف جگہوں پر منتقل کرتا رہا اور بالآخر 25 مئی کوڈھاکہ ریڈیواسٹیشن کو کلکتہ منتقل کردیا گیا جہاں سے باغی گروپ کا پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ سقوط ڈھاکہ تک جاری رہا۔ یہ پاکستان اورریڈیو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا اور باغیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اس ریاستی نشریاتی ادارے کو بڑے موثر طریقے سے استعمال کیا۔قصہ مختصر26مارچ 1971ء کو ڈھاکا ریڈیو سے باغیوں کی طرف سے اعلان آزادی کے بعد صدریحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں سرچ لائٹ آپریشن کا حکم دے دیاآپریشن کے دوران پاکستان آرمی نے ڈھاکہ ریڈیو کا کنٹرول سنبھال لیاتھالیکن25مئی کو باغیوں نے اس کے ٹرانسمیٹر پر قبضہ کرکے اسے کلکتہ منتقل کردیا اور آزاد بنگال ریڈیو کے نام سے نشریات شروع کردیں جو 16دسمبر کو سقوط ڈھاکہ تک جاری رہیں۔اس ریڈیو کے ذریعے آٹھ ماہ سے دفاع وطن میں مصروف پاک فوج جس کی تعداد محض 30,000تھی اور بھو ک پیاس کے علاوہ جن کی وردیاں اور جوتے تک پھٹ چکے تھے، کے خلاف سنگین الزامات لگائے گئے جن میں تین لاکھ بنگالی عورتوں کی بیحرمتی کے الزام کو خوب اچھالا گیا لیکن پاکستان کی طرف سے ان الزامات کی تردید اور جھوٹے اور زہریلے پراپیگنڈے کا جواب دینے کیلئے کوئی موثر حکمت عملی نہ اپنائی گئی۔ بعدمیں اس تعداد میں مزید اضافہ کیا جاتا رہااور سقوط مشرقی پاکستان کے بعدبھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے اس تعداد کو مزید بڑھاکر30لاکھ تک پہنچا دیا۔1994ء میں ایک انٹرویو میں جب راقم نے لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی جنہیں4اپریل 1971ء کو لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کی جگہ ایسٹرن کمانڈ کا سربراہ مقرر کیاگیا تھا،کی توجہ اس طرف دلائی تو انہوں نے الٹا سوال کردیا کہ ان کے جوان جو آٹھ ماہ سے بھوکے پیاسے پھٹی وردیوں اور ٹوٹے جوتوں کے ساتھ بھارتی فوجیوں اور باغیوں کے ساتھ لڑرہے تھے اور جنہیں بیرک سے باہر نکلتے ہوئے کسی نا معلوم سمت سے آنے والی گولی لگ جانے کا اندیشہ رہتاتھا، کیا اس قسم کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے تھے۔
جنرل نیازی نے یہ بھی بتایا تھا کہ مشرقی پاکستان میں اپنی تعیناتی کے بعد وہ دشمنوں دھکیلتے ہوئے بھارت کی سرحد تک پہنچ چکے تھے اور صدریحییٰ سے دشمن کے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تھی لیکن بدقسمتی سے انہیں بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور بعد میں فضائی حدود بندہونے کے سبب رسد کی بندش کی وجہ سے پاک فوج محصور ہوکر رہ گئی تھی ۔ جنرل نیازی نے صدریحییٰ کو بھیجا جانے والا اپنا ایک ٹیلیکس پیغام بھی دکھایا تھا جس میں انہیں اسلحہ کے قریب الختم ہونے کے بارے میں اطلاع دے کر کسی نہ کسی طریقے سے رسد بھجوانے کی درخواست کی گئی تھی جبکہ جوابی ٹیلیکس کا متن کچھ یوں تھا کہ پاک فوج بہت بہادری سے لڑی ہے، ہمیں آپ پر فخر ہے، اللہ آپ کا حامی و ناصر تھے۔ یعنی محصور فوج کو بالکل بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔
جہاں تک ابلاغی محاذ کا تعلق ہے ، زہریلے پراپیگنڈے کیلئے بھارت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ریڈیوسٹیشنز کا جال بچھا دیا ہے جبکہ ہم نے سیالکوٹ اور سرگودھا جیسے دفاعی اعتبار سے حساس ریڈیو سٹیشن بند کردئیے ہیں۔ ریاستی ذرائع ابلاغ کو دنیا بھر میں دفاعی ادارے تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ ہم انہیںمنافع بخش اورتجارتی اداروں میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں،یہ ریاستی دفاعی ادارہ اپنے ہی محافظوں کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اور وہ حیلے بہانوں سے مختلف شہروں میں موجود اس کی قیمتی زمینوں کو ہتھیانے کے درپے ہیں۔ ایسے عناصر جنہیں سرکاری اداروں کی اہمیت کا سرے سے ادراک ہی نہیں، ان اداروں کی دیکھ بھال پر مامور ہیں۔
افسوس، ریڈیو پاکستان جو گزشتہ سات دہائیوں میں وطن عزیز کا سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک بن چکا تھا، اس کے بہت سے سٹیشن گزشتہ ڈھائی تین سال میں بند کردئیے گئے ہیں یا انہیں ریلے سنٹرز میں تبدیل کردیا گیاہے۔ریڈیوپاکستان کا گلا گھونٹنے کیلئے مختلف بہانوں سے اس کے ایک ہزار سے زائد کنٹریکٹ سٹاف کو فارغ کیا جاچکاہے۔ ان ملازمین نے ریڈیوپاکستان میں جو تجربہ حاصل کیا وہ دراصل ان ملازمین پر ریڈیوپاکستان کی سرمایہ کاری تھی اور یوں ریڈیوپاکستان کی اس سرمایہ کاری کا منافع دوسری چینل حاصل کررہے ہیں جنہوں نے ریڈیو پاکستان سے فارغ ہونے والے ان ملازمین کواچھے مشاہروں پر بھرتی کر لیا ہے۔ اس طرح ریڈیوپاکستان کو نہ صرف محدود بلکہ مفلوج کرنے کا عمل جاری ہے۔تقریباً یہی حالات پاکستان ٹیلی وژن کے بھی ہیں۔
دنیا بھر میںسیاستداں اور حکومتیں چاہے وہ آمرانہ ہوں یا جمہوری ، قوم کو متحدو یکجان رکھتے ہیں لیکن ہم؟ آج کی صورتحال دیکھ کر راقم کواکتوبر1998ء میں حکیم محمد سعید شہید کے ساتھ ان کی زندگی کاآخری انٹرویو یادآرہا ہے، راقم کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاتھا ’’میں ایک اور (خاکم بدہن) تقسیم پاکستان دیکھ رہاہوں‘‘۔آج کی صورتحال کو دیکھ کر راقم یہی کہہ سکتا ہے ؎
کیا پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
یکھ کر راقم یہی کہہ سکتا ہے ؎
کیا پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟