مزید خبریں

ملازمین کے مسائل کا حل اور کمیٹی کا قیام

قومی اسمبلی نے ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ خصوصی کمیٹی برائے بحالی ملازمین کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام اداروں کے ڈیلی ویجز، کنٹریکٹ، ایڈہاک اور پروجیکٹ ملازمین کی مستقلی پر بھی کام شروع کردے گی۔ خصوصی کمیٹی برائے بحال ملازمین اور خصوصی کمیٹی برائے متاثر ملازمین کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قادر خان مندو خیل ممبر قومی اسمبلی حلقہ NA-249 ہوں گے، جب کہ باقی قومی اسمبلی کے اراکین کمیٹی کے ممبر ہوں گے۔ ایک ہی کمیٹی کے ممبران بحالی ملازمین اور متاثر ملازمین دونوں ہی ملازمین کے مسائل کے حل لیے مقرر چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قادر خان مندوخیل کا کہنا ہے کہ پالیمنٹ سے مزید اختیارات حاصل کرکے تمام ملازمین کے مسائل کو جلد حل کریں گے۔ تحریک انصا ف کی حکومت نے بھی تمام وفاقی سرکاری وزارتوں،ڈویژنز یا محکموں میں کام کرنے والے ہزاروں صرف کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے آئینی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا تھا، جس کے مطابق اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کو اس کا چیئرمین مقرر کردیا گیا تھا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن،سیکرٹری خزانہ،سیکرٹری قانون،سیکرٹری ریلوے اور سیکرٹری پاورڈویژن بھی کمیٹی کے ارکان میں شامل تھے، جب کہ جوائنٹ سیکرٹری (ریگولیشن ) اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو کمیٹی کا سیکرٹری مقرر کردیا گیا تھا۔کمیٹی مختلف وزارتوں و ڈویژنوں کے کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کے لیے سفارشات تیار کرے گی اور کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں یونیفارم پالیسی کو حتمی شکل دینے کے بعد،اس یونیفارم پالیسی کو منظوری کے لییوفاقی کابینہ میں پیش کیا جانا تھا۔پھر اس کمیٹی کا چیئرمین اس وقت کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم بنے تھے۔لیکن اس کمیٹی کا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
اسی طرح پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت نے کیبنٹ کی سب کمیٹی برائے ریگولرائزنگ آف ڈیلی ویجز اینڈ کنٹریکٹ ورکرز ان سروس بنی تھی، جس کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ تھے۔ اس کمیٹی نے مختلف اداروں کے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیا گیا تھا۔ پھر نواز شریف کے دور میں اپریل 2015 ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ایک اعلیٰ سطح کی آئینی کمیٹی حسیب اطہر کے چیئرمین شپ میں قائم کی گئی تھی،جو ملازمین کا فردافردا موقف سن کر ملازمین کے مستقلی کا فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کرنا تھا۔اس کے بعد اس کمیٹی کا چیئرمین میاں اسد حیاء الدین کو بنایا گیا تھا، ان کے دور میں بھی تیس ہزار کے قریب ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین مستقل ہوئے تھے،لیکن جو مستقلی کے اصل حقدار تھے ان کے لیے نتیجہ صفر یعنی؟
سرکاری اور نجی ادارے ملکی سطح پر گزشتہ کئی سالوں میں ملک کے دستور کے آرٹیکل3،4،5،9اور25 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اداروں میں مستقل بنیادوں پر بھرتیاں کرنے کے بجائے ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ پر بھرتیاں کر کے آئین کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہے ہیں، جب کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت تمام شہریوں کو انجمن سازی کا حق ہے۔اپنا جائز اور بنیادی حق مانگنے پر ادارے کی انتظامیہ ملازمین کو برطرف کردیتی ہے۔نچلے گریڈز کے ملازمین کی اکثریت کم تنخواہوں کے باعث عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانہ بھی نا ممکن ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنی شکایات کے ازالہ کیے بغیر ہی ریٹائر ہوجاتے ہیں، جس طرح 1996-1999 کے عرصے میں نکالے گئے ملازمین کی بحالی سروس ایکٹ2010 پی پی سرکار کا بہترین کارنامہ تھا۔ اسی طرح خورشید شاہ کی کمیٹی سے 25مارچ 2008 سے لے کر 24 مارچ 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے عرصے کے دوران باقی رہ جانے والے تمام ڈیلی ویجز، کنٹریکٹ، ایڈہاک اور پراجیکٹ ملازمین جو اس وقت وہ ملازمین پے رول پر بھی تھے ان تمام عارضی ملازمین کے لیے قومی اسمبلی سے ایک بل ریگولرائزیشن ان سروسز پاس کروایا جائے۔ اس ریگولرائیزیشن ایکٹ میں واضح لکھا جائے کہ جن جن اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز موجود ہیں وہ اپنے اپنے اداروں میں سے ڈیلی ویجز ، کنٹریکٹ، ایڈہاک اور پراجیکٹ کے فرسودہ نظام کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے تقرری کے مستقل آرڈر جاری کریں۔
چونکہ نئی کمیٹی کے چیئرمین کا تعلق بھی کراچی ہی سے ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان مشین ٹول فیکٹری کراچی سمیت تمام سرکاری محکموں میں تیس، پینتیس سالوں سے کام کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے گا، اور ایک مکینزم بناکر نئی پالیسی میںتمام ملازمین کوشامل کیا جائے۔ امید ہے کہ کمیٹی کے نئے چیئرمین پروفیسرڈاکٹر قادر خان مندوخیل کو جو تحریری طور پرتجاویز ڈیلی ویجز اینڈ کنٹریکٹ ایمپلائیز ویلفیئر کمیٹی نے بھیجی ہیں، ان پر ضرور غور کریں گے اور ہمیں ریگولر کرانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔