مزید خبریں

نیکی اور بدی کا منبع

یہاں (حدیث میں) ’’صلاح‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی دراصل ہر قسم کی اچھائی اور بھلائی اور اصلاح ہے‘ اور فساد سے بھی ہر طرح کا فساد مراد ہے۔ حدیث میں اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے کہ کس قسم کی صلاح اور کس قسم کا فساد مراد ہے۔ ہر قسم کی صلاح اور ہر قسم کا فساد مراد ہو سکتا ہے خواہ وہ انسان کی جسمانی زندگی سے متعلق ہو یا اخلاقی زندگی سے یا مادی زندگی سے‘ خواہ اس کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا اس کی اجتماعی زندگی سے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ ہر صلاح اور ہر قسم کی صلاح‘ ہر فساد اور ہر قسم کے فساد کا انحصار قلب پر ہے۔ قرآن مجید نے اس بات کو بہت کھول کر بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ پوری انسانی زندگی میں جو کچھ بھی پیش آ رہا ہے وہ اس دل کی وجہ سے ہے۔ فرمایا : ’’ان کے دلوں میں مرض ہے‘‘۔ (البقرہ:10) کسی منافقت‘ نافرمانی اور تغافل کے رویوں کے پیچھے جو چیز ہے وہ دراصل دلوں کا مرض ہے۔ مرض کی جڑ دلوں میں ہے۔ فرمایا: ’’حقیقت یہ ہے کہ وہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔ (الحج: 64) گویا یہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں کہ دیکھنے سے انکار کردیں کہ صحیح راستہ کیا ہے اور صحیح کام کیا ہے‘ بلکہ جو دل سینوں کے اندر ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد آنکھیں دیکھتی بھی ہیں اور کان سنتے بھی ہیں‘ لیکن نہ صحیح راستہ دکھائی دیتا ہے‘ نہ صحیح آواز سنائی دیتی ہے اور نہ آدمی ہدایت قبول کرتا ہے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ ایمان اور تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے: ’’مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنا دیا‘‘۔ (الحجرات: 7) یعنی جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے آزمالیاوہی اہل تقویٰ ہیں نہ کہ ظاہر کی چیزیں تقویٰ ہیں۔ (الحجرات: 3)
اس بات کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق حضورؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور فرمایا کہ التقویٰ ھٰھنا‘ تقویٰ دراصل یہاں ہے۔ تقویٰ کو تم کبھی لباس میں ڈھونڈتے ہو‘ کبھی شکل و صورت میں‘ کبھی ظواہر میں‘ لیکن تقویٰ کا مرکز اور سرچشمہ تو یہاں پر ہے۔ تین دفعہ آپؐ نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف اشارہ کرکے اس بات کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن مجید نے بھی کئی دفعہ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل پرسش قلب کے اعمال کی ہے۔ اگر کسی آدمی کو زبردستی کلمۂ کفر کہنا پڑے لیکن اس کے دل کے اندر ایمان ہو تو اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ جس کو مجبور کردیا گیا لیکن قلبہ مطمئن‘ اس کا دل ایمان کے اوپر مطمئن ہے‘ اس سے کوئی بازپرس نہ ہوگی۔ آپؐ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تم گناہ تو کرتے ہو لیکن پرسش تو اس گناہ کی ہے جس کا دل نے ارادہ کیا ہو‘ جو دل نے کمایا ہو۔ دل کی کمائی پر انسان سراسر قابل مواخذہ ہے۔
انسان اس لیے جواب دہ اور قابل مواخذہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوارادے کی آزادی دی ہے۔ کوئی چاہے تو نیکی کرے اور کوئی چاہے تو برائی کرے۔ اس ارادے کا سرچشمہ اور ڈوری کیونکہ قلب کے ہاتھ میں ہے اس لیے اصل ذمے داری قلب کی ہے۔ گناہ کا ذمے دار بھی انسان کا قلب ہے‘ یعنی اس کے اندر کی شخصیت جو اس کے جذبات اور ارادے اور محرکات اور ہر چیز کی مرکز ہے۔ قیامت کے روزبھی وہی آدمی نجات پائے گاجو صحیح سالم دل لے کر اللہ کے پاس جائے گا۔ اس کو قرآن مجید میں واضح کردیا گیا: جس دن نہ مال کام آئے گا‘ نہ بیٹے کام آئیں گے‘ نہ دولت کام آئے گی‘ نہ جایداد کام آئے گی سوائے اس کے کہ جو ’’قلب سلیم‘‘ لے کر آئے گا۔ جو سالم ’صحیح‘ درست دل لے کر اللہ کے پاس آیا‘ بس وہی نجات پائے گا۔ جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں‘ فرمایا کہ اللہ کے ہاں آگ تیار ہے‘ بھڑک بھڑک کر ان کے دلوں تک جھانکے گی۔ مختلف جگہ قرآن نے یہ اشارہ دیا ہے کہ دراصل ذمے داراندر کی شخصیت ہے۔ جسم تو ہر پانچ سال میں نیا بن جاتا ہے اور مٹی میں مل کے دوبارہ بھی نیا بنے گا۔ اس ہاتھ میں اس وقت جو گوشت ہے وہ کوئی گناہ کرنے کا ذمے دار نہیں ہے۔ یہ تو فنا ہوجائے گا لیکن جو اندر کی شخصیت ہے‘ جو ارادہ کرتی ہے‘ اور اس کے نتیجے میں انسان نیکی کرتا ہے یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے‘ وہی اس کے لیے ذمے دار ہے۔
حضورؐ نے جو بات یہاں پر فرمائی ہے یہ انسان کی زندگی کے تالے کھولنے کے لیے پہلی کنجی ہے‘ انفرادی زندگی کے بھی اور اجتماعی زندگی کے بھی۔ اصل ذمے دار دل ہے۔ اگر دلوں کے اندر بگاڑ ہوا تو زندگی بھی بگڑے گی‘ معاشرہ بھی بگڑے گا‘ سوسائٹی بھی بگڑے گی‘ ریاست بھی بگڑے گی‘ سیاست بھی بگڑے گی اور معیشت بھی بگڑے گی‘ اور اگر دل درست ہوں گے تو ہر چیز میں سدھار پیدا ہوجائے گا۔