مزید خبریں

قربانی حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے‘اللہ کو گوشت ،خون نہیں،صرف تقویٰ پہنچتا ہے

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) قربانی حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے‘اللہ کو گوشت ،خون نہیں،صرف تقویٰ پہنچتا ہے‘حج اور قربانی کے ہر رکن میں خلیل اللہ ؑ کے عزم و استقامت کی جھلک نظرآتی ہے‘ تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کے حکم کو ترجیح دی جائے‘جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ راہ حق میں قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین اور جماعت اسلامی بھارت کے شعبہ تربیت کے معاون آصف علی قاسمی، ایڈیٹر بصیرت آن لائن مجاہد حسین پہراوی اور فقہ جعفریہ کے ممتاز عالم سید جواد حسین رضوی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’سنت ابراہیمی کی کیا اہمیت ہے؟‘‘آصف علی قاسمی کا کہنا تھا کہ قربانی ایک مختصر لفظ ہے لیکن انسانی زندگی میں اس کی غیر معمولی اہمیت ہے‘ اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر پڑتی ہے‘ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے‘ اس مقصد کے لیے اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے‘ مقصد جتنا عظیم ہوتا ہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی‘ مثلاً انسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جوقرب الٰہی اور کیفیت تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں اور یہ قرب الٰہی کیفیت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتا لہٰذا اطاعت کے لیے قربانی ضروری ہے۔ اسی لیے قران میں کہا گیا ہے کہ ’’نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت اللہ کو پہنچتاہے نہ خون۔ مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ کو مقصود ان جانوروں کا خون یا ان کا گوشت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس پر کس قدر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں‘ عیدالاضحی کا مقصد بھی جذبہ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے تحت رضائے الٰہی کے حصول کے لیے قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے‘ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کے حکم کو ترجیح دی جائے‘ قربانی کی رسم قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ قران کہتا ہے ’’ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے۔ تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں (الحج:۴۳) اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے نبی سے پوچھا، یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘ (ترمذی)‘ قربانی کے مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال اور قابل رشک زندگی سے سمجھ سکتے ہیں‘ یہ حقیقت ہے کہ جس کو جس سے جتنی محبت ہوتی ہے وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتا ہے‘ اس کرہ ارض پر رونما ہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں تو ہمیں بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں، دلفریباں اور جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ مگر فدائیت وللّٰہیت، استقامت وثابت قدمی، ابتلا و آزمائش سے لبریز اور ناقابل فراموش داستان جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی ہے اس سے دیگر عشاق کائنات بالکل خالی وعاری ہیں۔اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے مگر انسان اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملا تھا۔ جب تک قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں گے۔ اور جب بھی عیدالاضحیٰ کا تاریخی دن آئے گا‘ لوگ ان کی تاریخ کو دُہرائیں گے‘ اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں وہ اطاعت الٰہی کے لیے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں اور اس راہ میں قربانی دینے پر تیار رہیں کیوں کہ آج بھی آگ ہے ‘ اولاد ہے، ابراہیم ہے، نمرود ہے،کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے۔ مجاہد حسین پہراوی نے کہا کہ ذی الحجہ کے مہینے میں 2 خاص عبادتیں ادا کی جاتی ہیں‘ حج اور قربانی۔ اسلام کی یہ دونوں عبادتیں اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یادگار ہیں‘ ان دونوں عبادتوں کے ایک ایک رکن میں حضرت ابراہیم کی اداؤں اور وفاؤںکی جھلک ہے‘ ان میں دعوت و انابت، اطاعت و فرمانبرداری، صبر و استقامت اور رشد و ہدایت کا پہلو مؤجزن ہے‘ یہ ساری صفاتِ عالیہ اور یہ سارے نیک جذبات ہر ایک مومن کے قلب و جگر میں پیوست ہوں‘ سنت ابراہیمی یہ ہے کہ جب بھی کبھی دعوت دین کی خاطر گھر بار چھوڑنا پڑے تو خندہ پیشانی سے اسے قبول کیا جائے، جب کبھی وقت کے ظالم بادشاہ اور حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئے تو پائے ثبات متزلزل نہ ہو‘ زندگی کے کسی مقام پر دین اسلام کے لیے اپنے آپ کو آگ کے حوالے کرنے کی نوبت آجائے تو عزم و حوصلہ میں کمی نہ آنے پائے‘ دکھ، مصیبت اور پریشانی کے عالم میں کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے‘ رب تعالیٰ سے امید و آس کی ڈور نہ ٹوٹے‘ اگرچہ انتظار کی مدت84 سال کی ہیکیوں نہ ہوجائے‘ کیونکہ جب بھی کبھی آل و اولاد کی محبت اور حکم الٰہی کا تقابل ہو جائے تو حکم الٰہی کو ترجیح دینا آسان ہو جائے‘ رب تعالیٰ کی رضا اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے اگر اپنی جان، اپنا مال اور وقت کی قربانی دینی پڑے تو ہم بہ خوشی تیار ہوں۔ سنت ابراہیمی یہ بھی ہے کہ دنیا جہاں کی تمام تر نیک اعمال کی توفیق مل جانے پر بھی کبھی بڑائی اور تکبر کا دل میں شائبہ تک نہ گزرے بلکہ شکر و حمد باری کے ساتھ اس کی قبولیت کے لیے ہر وقت سراپا دعا گو ہوں۔ جیسا کہ قرآن نے تذکرہ کیا ہے کہ ’’یاد کرو اس وقت کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں کھڑی کر رہے تھے، حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی ساتھ تھے (ایسے عظیم الشان عبادت کے ادا کرتے وقت بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! ہماری اس عبادت کو قبول فرما‘‘۔ سید جواد حسین رضوی نے کہا کہ ہر چیز کی طرح قربانی کی روح بھی فراموش ہو چکی ہے‘ قربانی محض رسم بن چکی ہے‘ لوگ قربانی اس رسم کو پوری کرنے کے لیے کرتے ہیں ورنہ پڑوسی کیا کہیں گے، رشتہ دار کیا کہیں گے، بچے دیگر بچوں کے سامنے شرمسار ہوں گے کہ ہم نے قربانی نہیں کی، اگر کسی نے بڑا جانور لیا ہے تو لوگ کیا کہیں گے کہ ہمارا جانور چھوٹا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ صورتحال ہوگی تو چھری پھیر کر محض رسم پوری ہوگی اور اس کے بعد فریج بھر لیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ سب سے اہم بات حضرت ابراہیم ؑکی سنت پر عمل ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ ابراہیم ؑ کی اصل سنت کیا تھی؟ توحید پر عمل اور شرک سے بیزاری، قربانی کا حقیقی مفہوم یہی ہے لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ ہماری ہر نماز، ہماری ہر قربانی اور ہمارا جینا، مرنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اور یہی سنت ابراہیمی ؑ ہے جس پر ہر مسلمان کو عمل کرنا چاہیے اور اس کی تجدید ہر عیدالاضحی پر ہوتی ہے۔