مزید خبریں

ہم دنیا سے محبت اور موت سے کراہیت کا شکار ہیں،دولت کو عزت کا معیار سمجھ لیا

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) معاشرہ وھن کا شکار ہو چکا ہے‘ دولت سے محبت کی وجہ اللہ پر توکل اور یقین کا کم ہو جانا ہے‘ ہم دنیا سے محبت اور موت سے کراہیت کا شکار ہیں‘ شارٹ کٹ کے رحجان نے بھی دولت سے محبت اضافہ کیا‘ موجودہ معاشرے میں دولت ہی کو عزت و عظمت کا معیار سمجھ لیا گیا ہے‘ دنیاوی آسائشیں اور سہولیات جمع کر نے کی کوشش نے معاشرے کو دولت کی محبت میں گرفتار کردیا ہے‘ مال انسان کی بڑائی کا پیمانہ بن چکا‘ دولت سے محروم افراد کی بے توقیری نے معاشرے کو دولت کی محبت میں گرفتار کیا۔ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور جامعہ صفہ کے نائب مہتمم مفتی محمد زبیر، جمعیت اتحاد العلمائے اسلام کے رہنما مولانا مفتی عبدالوحید خان اور معروف کالم نگار ادیب مہر محمد طفیل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’معاشرہ دولت کی محبت کا کیوں شکار ہے؟‘‘ مفتی محمد زبیر نے کہا کہ معاشرہ دولت کی محبت میں اس لیے گرفتار ہے کہ ترقی کے مفہوم اور معنی کو بدل دیا گیا ہے‘ دین سے دوری کی وجہ سے جن اقدار اور دینی روایات سے دوری کا نقصان ہوا‘ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ترقی کس چیز کو سمجھتے ہیں‘ ہمارے معاشرے کا مقصد محض دولت کمانا رہ گیا ہے اور محض مادی ترقی کو ہی حقیقی کامیابی سمجھ لیا گیا ہے‘ معاشرے میں ترقی، شہرت اور عزت
کے حصول کے لیے شارٹ کٹ کے رحجان نے بھی دولت سے محبت اضافہ کیا ہے‘ ہم فوری ترقی، مقام اور شہرت و عزت پانے کا طریقہ دولت مند ہونے کو سمجھنے لگے جس کے بعد ہم محض دولت کمانے ہی لگ گئے جس کا نتیجہ دولت کی محبت میںگرفتاری کی صورت میں نکلا‘ دولت سے محبت کی سب سے بڑی وجہ اللہ پر توکل اور یقین بہت کم ہوگیا ہے‘ ہم سمجھتے ہیں سارے معاملات صرف اور صرف دولت کی وجہ سے ہوتے ہیں حالانکہ ساری کی ساری چیزیں دولت سے حاصل نہیں ہوتیں‘ جیسے کہ صحت، نیند، سکون، خوشی کے جذبات ہیںاور اس طرح دوسری چیزیں ہیں جو دولت سے حاصل نہیں ہو سکتیں‘ اگر یہ سب چیزیں دولت سے حاصل ہوتیں تو ہر دولت مند سکون کی نیند سوتا اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو جتنا دولت مند ہوتا چلا جاتا ہے‘ وہ اتنی ہی بے چینی، ذہنی دبائو، بے خوابی جیسے مسائل کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے‘دولت سے محبت کے پس منظر میں جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ موت کو بھول جانا ہے‘ ہم دنیا سے محبت اور موت سے کراہیت کا شکار ہیں‘ ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ نے فرمایا ’’مجھے تم پر وھن کا خطرہ ہے‘‘ صحابہ نے سوال کیاکہ وھن کیا ہے؟ فرمایا ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘۔ مولانا عبدالوحیدخان نے کہا کہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے مال و دولت ضروری ہے‘ یہ نہ ہو تو جینا دوبھر ہوجاتا ہے‘ قرآن پاک اپنی ضروریات کو پورا کرنے لیے جائز ذرائع سے دولت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاہم موجودہ دور میں انسانوں کی ذہنیت ایسی بن گئی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں‘ صبح اٹھنے کے بعد سے رات کو بستر پر جانے تک انہیں ہر لمحہ یہی دھن سوار رہتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے‘ اپنے لیے دنیاوی آسائشیں اور سہولیات فراہم ہوں‘ بینک بیلنس ہو‘ کشادہ مکانات، فلیٹس، جائدادیں، لگژری کاریں اور دنیاوی عیش وآرام کے دیگر وسائل حاصل ہوں۔ جو شخص جس پوزیشن میں ہے، اس کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اس سے بہتر پوزیشن میں ہو جائے‘ اس کوشش میں اسے قوانین و ضوابط توڑنے اور اخلاقی حدود پامال کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتااور رفاہی کام کرنے اور ضرورت مندوں، محتاجوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی‘ ذاتی مفاد، خود غرضی اور نفسانیت ہر وقت اس کے پیش نظر رہتی ہیں۔ مہر محمد طفیل کا کہنا تھا کہ مال و دولت کی محبت انسان کے دل میں اس حد تک بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس کو عزت و عظمت کا معیار سمجھنے لگتا ہے‘ مال انسان کی بڑائی کا پیمانہ بن جاتا ہے اور جو اس سے محروم ہو اسے سماج میں کچھ اہمیت نہیں دی جاتی‘ اس لیے کہ معمولی سے معمولی چیز کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں‘ اسی بنا پر انسان کی فطرت میں اس کی محبت شامل ہے‘ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ دراصل یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو پا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے یا ان پر اترانے یا گھمنڈ کرنے لگتا ہے‘ مال و دولت کی محبت انسان کے دل میں اس حد تک بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس کو عزت وعظمت کا معیار سمجھنے لگتا ہے۔ مال انسان کی بڑائی کا پیمانہ بن جاتا ہے اور جو اس سے محروم ہو اسے سماج میں کچھ اہمیت نہیں دی جاتی‘ کسی کو دولت سے پیدائشی محبت نہیں ہوتی ہے‘ پیدائشی محبت تو بچے کو اپنی ماں سے ہوتی ہے‘ پیسے سے محبت بعد میں سماج کی وجہ سے ہوتی ہے‘ جب وہ دیکھتا ہے کہ پیسے کی وجہ سے ایک آدمی سرگرداں پھرتا ہے‘ پیسے کے پیچھے بھاگا پھرتا ہے‘ دھوپ میں پھرتا ہے‘ بیمار دوائی کے پیچھے پِھر رہا ہے‘ ان ہی تمام چیزوں کے نتیجے میں انسان کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ان چیزوں کا علاج شاید دولت ہی ہے‘ مادی دنیا نے دولت کی صورت میں اپنا مرکز پیدا کرکے دکھایا‘ دولت ہی ’’تعلق‘‘ بن کر رہ گئی‘ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشرے میں قیامت برپا کردی‘ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے ان بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کم کامیاب ہوتے ہیں۔