مزید خبریں

عالمی سطح پہ یوم مزدور اور ہم

یوں تو یوم مزدور پہ قلم کار دانشور سیاسی جماعتیں اور دیگر ذرائع ابلاغ اپنی اپنی تقاریب کا انعقاد اور تحریروں سے مزدور کی شان بڑھاتے رہتے ہیں لیکن میدان عمل میں جو مزدور کی حالت ہے اسے بیان کرنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک خداداد میں جس طرح مزدور کے لیے جتنے قوانین بنے اگر ان پہ عمل درآمد کر لیا جاتا تو شاید مزدور کی صف میں بڑے بڑے مالکان بھی کھڑے نظر آتے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے بھی مزدور کے لیے الیکشن منشور اور نعرے ایجاد کرنے کے علاوہ عملی کام نہیں کیا۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی مزدور پالیسیاں نظر آتی ہیں، اگر ان پالیسیوں پر بھی ان کی روح کے مطابق عمل ہو جائے تو بھی مزدور خوشحال نظر آئے گا۔ ہم یہاں شگاگو کے ان عظیم مزدوروں کی قربانیوں کا تو تذکرہ کرتے ہیں لیکن ان جیسی کوئی تحریک اس ملک میں لا نہیں سکا۔ یعنی کہ مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ناکام رہے۔ ہم آج تک بندہ مزدور کو یہ بھی باور نہیں کروا پائے کہ یہ جو لال جھنڈا ہمارے ہاتھ میں ہے اس کی تاریخ کیا ہے اس کا رنگ لال کیوں ہے۔ راقم کو تو افسوس و ملال اس بات پر زیادہ ہے کہ ہم نعرہ تو یہ مارتے ہیں کہ دنیا کے مزدوروں ایک ہو جائو لیکن جب مجمع پہ نظر پڑھتی ہے تو مختلف رنگ کے جھنڈے جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا مظہر ہوتے ہیں نظر آتے ہیں یہ ہیں۔ ہمارے قول و عمل۔