مزید خبریں

گندم بحران ـ ایف پی سی سی آئی نجی شعبے کو بے قصور بتا نے لگی ؟ حافظ نعیم کا سزا پر اصرار

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے 29 اپریل کر اچی پریس کلب میں خطاب کے دوران مطالبہ کیا تھا گندم بحران پیدا کر نے والوں کو سخت سزا دی جائے ۔انھوں کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیدا شدہ گندم کے بحران ، کم قیمت پر خریداری کے خلاف اور کسانوں کے حقوق کے لیے پنجاب بھر میں احتجاج اور دھرنے دیے جائیں گے۔ گندم کی ریکارڈ پیدوار ہونے کے باوجود30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے والوں اور اس کے حصہ داروں کو بے نقاب کرکے ان سب کو سزائیں دی جائیں۔

جس کے فوری بعد صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ کاشتکاروں کے لیے گندم کی امدادی قیمت جاری رہنی چاہیے؛ کیونکہ انہیں اپنی فصلوں کی ضمانت شدہ فروخت کے لیے سپورٹ میکنزم کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ مالی بوجھ عوام پر مہنگے گندم کے آٹے کی شکل میں منتقل نہیں کیا جانا چاہیے؛ جوکہ پاکستان کے لوگوں کے لیے سب سے اہم غذائی جزو ہے۔

اس اچانک بیان کی بنیادی وجہ یہ تھی ا س کے فوری بعد سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت کی کہ نجی شعبہ گندم اس وقت درآمد کرتا ہے ۔اس وضاحت کی ضرورت اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے 29اپریل کر اچی پریس کلب میں خطاب کے دوران مطالبہ کیا تھا گندم بحران پیدا کر نے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت یہ بات ثابت کر نے کی کوشش کی کہ نجی شعبہ مکمل طور سے تمام صورتحا سے لاعلم اور اسی لاعلمی میں ملک ایک ارب ڈالر ز سے زائد کا نقصان ہو گیا ہے

ثاقب فیاض مگوں ایف پی سی آئی کے سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ہیں لیکن ان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ ملک میں کو گندم کی قلت کی قلت کبھی نہیں تھی اور پورے ملک میں وافر مقدار میں گندم کی رسد جاری تھی لیکن گندم کے منافع خور اور بد عنوان تاجروں نے گند م اور آٹے کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا تھا جن کو سخت سزا دیکر نشان عبر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کو ئی ملک میں خوراک کا بحران پید کر نے کی کو شش نہ کرے ۔
ثاقب فیاض مگوں ایف پی سی آئی کے سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ہیں لیکن ان کو اس بات کا علم نہیں تھا ملک میں کو گندم کی قلت کی قلت کبھی نہیں تھا اور پورے ملک میں وافر مقدار میں گندم کی رسد جاری تھی لیکن گندم کے منافع خور اور بد عنوان تاجروں نے گند م اور آٹے کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا تھا

ثاقب فیاض مگوں نے بتایا کہ حکومت کے اپنے اندازوں کے مطابق اس سال گندم کی 25 لاکھ ٹن کی کمی تھی۔ جبکہ آزاد ذرائع نے اس کمی کو 30 لاکھ ٹن بیان کیا۔ لہذا، قومی غذائی تحفظ کی وزارت اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) دونوں نے نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دی لیکن اس میں کسی قسم کی سبسڈی شامل نہیں تھی۔ ای سی سی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے گندم کی درآمد کے لیے ایل سی کھولنے کے لیے بھی کہا۔ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے گندم درآمد کنندگان یا نگران حکومت کو سپلائی کے خسارے کو پورا کرنے کا الزام دینا ناانصافی ہے؛بجائے اس کے کہ ان کی بروقت درآمدات کو سراہا جاتا۔جبکہ گندم کے درآمد کنندگان نے حکومتی پالیسیوں اور ضابطوں کے مطابق گندم درآمد کی ہے۔ لہٰذا، ان کی نیت پر شک کرنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ملک کے غذائی تحفظ کے مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ثاقب فیاض مگوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت پائپ لائن میں موجود گندم کی درآمدات بھی حکومتی پالیسیوں اور تمام قابل اطلاق ٹیکسز اور ڈیوٹیوں کی مکمل تعمیل کے تحت کی جا رہی ہیں۔ مزید برآں، اگر ہم گندم جیسی ضروری اور انتہائی اہم اشیاء کے درآمد کنندگان کو ہراساں کرتے ہیں، تو درآمد کنندگان مستقبل میں ایسے کسی بھی بحران کے وقت اپنا اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔ ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ بروقت درآمد کی وجہ سے لوگوں کو پچھلے 5-6 ماہ میں گندم یا آٹے کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑااورکافی درآمدات کی وجہ سے آٹے کی قیمت کم رہی؛ کیونکہ درآمد شدہ گندم کی قیمت تقریباً 65 روپے فی کلورہی؛ جبکہ مقامی گندم کی قیمت لگ بھگ 100 روپے فی کلو رہی ۔ اس کا مطلب ہے کہ صارفین کوتقریباً 125 ارب روپے کی بچت ہوئی اور مہنگائی میں کمی کا رجحان شروع ہوا۔یہ سب کہانی ہیں ۔گزرے پورے سال کے دوران مارکیٹ میں آٹے کا بھاؤ پاکستان کی تاریخ بلندیوں کو چھو رہا تھا اور بدعنوں تاجروں نے خوب منافع کمایاہے اب بھی یہی فائدے میں ہیں ۔

اس پوری صورتحال سے ملک کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا دیا جس کی ابھی تفتیش ہو گی اور بس سب ختم ۔بلاوجہ وافر مقدارمیں درآمدشدہ گندم حالیہ بحران کی وجہ بنی، کسانوں سے مزید گندم خریدی تو حکومت کا دیوالیہ نکل جائیگا۔ ای سی سی جس میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بھی شامل ہیں جن کے اب ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ بھی ہے نے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کو گندم درآمد کرنے کی منظوری دے دی ۔پوری قوم کو آئی ایم کے سامنے رسوا کر نجی شعبے اور بیورو کریسی ملک کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا دیا ۔تفصیلات کے مطابق نجی شعبے کی ملی بھگت سے بیورو کریسی کے غلط فیصلوں سے قومی خزانے کو ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان ہوگیا۔نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے وافر گندم ہونے کے باوجود 35 لاکھ ٹن گندم درآ مدکی اجازت مانگی۔اقتصادی رابطہ کمیٹی ( ای سی سی ) جس مین سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بھی شامل ہیں جن کے اب ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ بھی ہے نے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کو گندم درآمد کرنے کی منظوری دے دی۔نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی، وفاقی سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے ہر کسی کو گندم منگوانے کی اجازت دے دی۔یکم اپریل 2024 تک 43 لاکھ ٹن گندم حکومت کے پاس موجود تھی، مارچ میں سندھ میں گندم کی نئی فصل آنے سے گندم درآمد کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ذرائع وزرات پیداوار کے مطابق پہلے مرحلے میں 20 لاکھ ٹن گندم درا?مد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، درآمد کی گئی گندم فروری میں پاکستان پہنچنا تھی تاہم تاخیر کی گئی۔ذرائع وزارت پیداوار کے مطابق مزید 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری لی گئی، مجموعی طور پر 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کر لی گئی۔بلاوجہ وافر مقدارمیں درآمدشدہ گندم حالیہ بحران کی وجہ بنی، کسانوں سے مزید گندم خریدی تو حکومت کا دیوالیہ نکل جائیگا۔

’کسان اتحاد‘ کے رہنما ملک ذوالفقار نے بتایا کہ حکومت کسانوں کو باردانہ فراہم نہیں کر رہی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’آڑھتیوں کو دھڑا دھڑ بار دانہ مل رہا ہے اور وہ کسانوں کو یہ بار دانہ دے کر 2900 روپے فی من سے لے کر 3000 روپے فی من تک کا نرخ دے رہے ہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’چھوٹے رقبے پر کاشت کرنے والے کسان دھڑا دھڑ اپنی فصل آڑھتیوں کو فروخت کر رہے ہیں اْن کے پاس گندم کو لمبے عرصے تک ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔‘انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کے نمائندوں کو بتایا جا رہا ہے کہ چونکہ درآمدی گندم بڑی مقدار میں پہلے ہی موجود ہے چنانچہ ’ہمارے پاس نہ تو پیسے ہیں کہ زائد گندم خریدیں اورنہ ہی زائد گندم کو ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام ہے۔‘
ملک ذوالفقار کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت نے بھاری مقدار میں گندم کو ضرورت کے بغیر درآمد کیا تھا اس سے قطع نظر کہ یہ شنید پہلے ہی تھی کہ رواں برس پاکستان میں گندم کی فصل شاندار ہو گی۔انھوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں حکومتی اہلکار کسانوں کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ گندم کاشت کریں، حکومت خریدے گی مگر اب کوئی بھی نہیں خرید رہا ہے۔

پنجاب حکومت کے وزیر خوراک بلال یاسین نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت ہر سال تقریباً 40 لاکھ ٹن گندم کے حصول کو ممکن بناتی ہے مگر اس سال ابھی تک گندم حصولی کا ٹارگٹ صرف 20 لاکھ ٹن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ نگران حکومت کے دور میں گندم کو برآمد کرنا تھا جو اب حکومتی سٹاک میں موجود ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے حالیہ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس (ر) میاں مشتاق کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔