مزید خبریں

مزاج کا تزکیہ

انسانوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو غصہ آتا ہی نہیں اور کچھ لوگوں کو ذرا ذرا سی بات پر غصہ آتا ہے۔ کچھ لوگ کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرتے اور کچھ لوگ معمولی بات پر ناراض ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ گفتگو میں ظرافت کو شامل کرتے ہیں اور کچھ لوگ ذرا سی ظرافت کو برداشت نہیں کرپاتے۔ کچھ لوگ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو اونچی آواز سے الرجی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ تنقید کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور کچھ لوگ تنقید سننا گوارا نہیں کرتے۔ کچھ لوگ حد درجہ حسّاس ہوتے ہیں، ذرا سی بے اعتنائی کو بہت زیادہ محسوس کرلیتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے احساس پر چھوٹی چھوٹی باتوں کو طاری نہیں ہونے دیتے۔ کچھ لوگ سلیقہ مندی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور کچھ لوگ سلیقہ مندی سے قطع نظر صرف نتائج کے حصول پر نظر رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ آگے بڑھنے کے لیے شاباشی کے ضرورت مند ہوتے ہیں اور کچھ لوگ شاباشی کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
ایسے مختلف مزاج رکھنے والے انسان جب ایک اجتماعیت کا حصہ بنتے ہیں تو مزاجوں کا ٹکراؤ ہونا یقینی ہوتا ہے۔ خود کو اور اپنی اجتماعیت کو ٹکراؤ سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اجتماعیت کا ہر فرد دو اصولوں کی پابندی کرے۔

پہلا اصول : اپنے مزاج کو دوسروں کے لیے سازگار بنائیں۔
ہوسکتا ہے کسی بات پر آپ کو غصہ نہیں آئے، لیکن اگر اسی بات پر دوسروں کو غصہ آتا ہے تو آپ اس سے پرہیز کریں۔ آپ ظرافت پسند ہیں، لیکن اگر دوسرے لوگ سنجیدگی پسند ہیں تو آپ اپنی ظرافت کو اتنا کم کریں کہ لوگ اسے برداشت کرسکیں۔ جن باتوں پر آپ ناراض نہیں ہوتے مگر دوسرے ناراض ہوتے ہیں ان باتوں سے آپ بھی اجتناب کرلیں۔ اگر آپ کا کوئی ساتھی بہت زیادہ حسّاس طبیعت رکھتا ہے تو آپ اس کا خیال کرکے ایسی کوئی بات نہ کہیں جس سے اسے الرجی ہو۔
اس کے لیے بہت ضروری ہوگا کہ آپ اجتماعیت میں شامل لوگوں کی مزاجی خصوصیات اور کم زوریوں سے واقفیت حاصل کریں۔

دوسرا اصول: دوسروں کے مزاجوں کو برداشت کریں۔
آپ کے ساتھی کی کوئی بات آپ کے مزاج سے میل نہیں کھاتی پھر بھی اسے گوارا کرلیں۔ آپ کو یہ پسند نہیں ہے کہ مجلس میں کوئی آپ کے ساتھ مذاق کرے، لیکن کوئی کرتا ہے تو اسے ہنسی خوشی سہہ لیں۔ اونچی آواز میں باتیں کرنا یا بحث ومباحثہ کرنا آپ کے مزاج کو راس نہیں آتا پھر بھی برداشت کرلیں۔
پہلا اصول کہتا ہے کہ آپ اپنے مزاج کے ان کانٹوں کو ختم کردیں جو دوسروں کے مزاجوں کو چبْھتے ہوں۔
دوسرا اصول یہ کہتا ہے کہ آپ اپنے مزاج میں وہ صبر و تحمل پیدا کریں کہ دوسروں کے مزاج کے کانٹے آپ کو تکلیف نہ دیں۔
پہلا اصول اپنائیں گے تو لوگ آپ کے مزاج کی وجہ سے تحریک سے متنفر نہیں ہوں گے۔ دوسرا اصول اپنائیں گے تو آپ لوگوں کے مزاج کی وجہ سے تحریک سے متنفر نہیں ہوں گے۔

عہدِ رسالت سے رہنمائی
اللہ کے رسولؐ اپنے حسنِ مزاج میں بھی بہترین اسوہ ہیں۔ آپ کے حسنِ مزاج کا ایک پہلو یہ تھا کہ کسی کے لیے بھی آپ کا مزاج تکلیف دہ نہیں تھا۔ اس کی ایک خوب صورت مثال آپ کے خادم سیدنا انسؓ کا یہ بیان ہے: میں دس سال تک اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں رہا۔ انھوں نے کبھی مجھے اف نہیں کہا۔ میرے کسی کام پر مجھ سے یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا، اور مجھ سے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ وہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ (سنن ترمذی) مزاج کی نرمی کی اس سے اعلی مثال شاید پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔
آپ کے حسنِ مزاج کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ دوسروں کی بدمزاجیاں بھی آپ خندہ پیشانی سے انگیز کرلیا کرتے تھے۔

اس کی مثال میں سیدنا انس کا ایک مشاہدہ پیش کیا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسولؐ کے ساتھ چل رہا تھا، آپ نجران کی چادر اوڑھے تھے، اس کا کنارا کڑے قسم کا تھا۔ اسی دوران ایک بدو آیا اور اس نے آپ کی چادر کو زور سے کھینچا۔ میں نے دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے اللہ کے رسولؐ کی گردن پر چادر کے کنارے کا گہرا نشان پڑ گیا۔ پھر اس نے کہا: اے محمدؐ! اللہ کا جو مال آپ کی تحویل میں ہے، اس میں سے مجھے دینے کا حکم جاری کرو۔ اللہ کے رسولؐ اس کی طرف مڑے، پھر خوب ہنسے، پھر اس کے لیے عطیے کا حکم صادر فرمادیا۔ (صحیح بخاری)

بدمزاجی کو خوش مزاجی سے دفع کرنے کا ایک خوب صورت واقعہ سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے ایک بدو سے عجوہ کھجوروں کے بدلے اونٹ کا گوشت خریدا۔ آپ گھر آئے تو معلوم ہوا کہ گھر میں وہ کھجور نہیں ہے۔ آپ واپس اس بدو کے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے تم سے عجوہ کھجور کے بدلے یہ گوشت خریدا تھا، ہمارا خیال تھا کہ گھر میں وہ کھجور رکھی ہے، مگر گھر میں وہ کھجور نہیں ہے۔ اس پر وہ بدو چلانے لگا: یہ دھوکا ہے، یہ دھوکا ہے۔ لوگوں نے اسے ٹہوکا لگایا کہ تم اللہ کے رسول سے ایسی بات کہہ رہے ہو۔ آپ نے کہا: اسے چھوڑ دو، حق دار کو بولنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے سمجھ کر نہیں دیا۔ تو آپ نے سیدہ خولہ کے یہاں کہلا بھیجا کہ اگر عجوہ کھجور تمھارے پاس ہو تو ہمیں قرض دے دو ہم بعد میں ان شاء اللہ ادا کردیں گے۔ اس طرح آپ نے اس بدو کو کھجور ادا کردی۔ پھر ایسا ہوا کہ وہ بدو آپ کے پاس سے گزرا، آپ اپنے صحابہ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ اس نے کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آپ نے پورا معاوضہ ادا کیا اور دل خوش کردیا۔ آپ نے فرمایا: یہ بہترین لوگ ہیں، پورا حق ادا کرتے ہیں اور عمدہ اوصاف کے حامل ہیں‘‘۔ (مسند احمد)

اللہ کے رسولؐ کی خوش مزاجی کی خوب صورت تعبیر سیدنا علیؓ سے منقول ہے۔ جنھوں نے بچپن سے آپ کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں: سب سے زیادہ کشادہ دل، سب سے زیادہ صاف گو، سب سے زیادہ نرم مزاج اور سب سے زیادہ خوش اخلاق‘‘۔ (سنن ترمذی)
اسلامی تحریک میں شامل ہونے والے خوش نصیب افراد اگر پیارے نبی کے اس حسین نمونے کو اپنے سامنے رکھیں تو ان کا تحریکی رشتہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوگا۔