مزید خبریں

رب سے ملاقات

اللہ سے ملاقات اور اعمال کی جواب دہی کے لیے تیاری اور جنت کی طلب و جستجو میں یکسوئی اور انہماک کے ساتھ لگ جانے کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ دنیا کو ترک کرنا ہوگا۔ جنت دنیا ہی کے ذریعے کمائی جاسکتی ہے۔ اپنے مقام پر دنیا کا ہر کام جو اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرے، اور اللہ کے لیے کیا جائے، عین عبادت ہے اور جنت میں لے جائے گا، خواہ وہ شکل و صورت میں خالص دنیاداری ہو۔ اس کے برخلاف جو کام بھی ہو، خواہ وہ شکل و صورت میں ٹھیٹھ دینی کام ہو، جنت سے دْور اور جہنم سے قریب لے جائے گا۔ میدانِ جہاد میں شہادت جیسا عظیم کام بھی اگر نام و نمود کے لیے ہو تو سر کے بل جہنم میں گرائے گا۔ مال و دولت کمانے جیسا خالص دنیاوی کام، اطاعت ِ الٰہی کے مطابق اور مقاصد الٰہی کے لیے ہو تو جنت کے اعلیٰ درجات پر پہنچا دے گا۔ آخرت پر یقین کے بغیر دنیا نہیں سدھر سکتی، دنیا کی اصلاح کے بغیر آخرت نہیں سنور سکتی۔

یہ سمجھ لیا جائے تو جب حساب کتاب کی فکر غالب ہوجاتی ہے اور جنت مقصود بن جاتی ہے تو دنیا اور کاروبار دنیا انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ دنیا کا ہر لمحہ قیمتی بن جاتا ہے کہ اس سے لازوال لمحات حاصل ہوسکتے ہیں۔ دولت کا ہر حبّہ بیش قیمت خزانہ بن جاتا ہے کہ اس سے ابدی راحت کے خزانے ہاتھ آسکتے ہیں۔ دنیا کا ہر کام اس لیے دل چسپی اور انہماک کا مرکز بن جاتا ہے کہ وہ جنت کے لیے سرمایہ کاری کا موقع ہے۔

دنیا، طالب آخرت کے لیے کتنی اہم ہوجاتی ہے؟ ایک حدیث سے اندازہ لگایئے۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے، اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں لگانے کے لیے کھجور کا پودا ہو، اور وہ قیامت کے واقع ہونے سے پہلے لگا سکتا ہو، تو ضرور لگا دے۔ یہ اس کے لیے بڑے اجر کا باعث ہوگا‘‘۔ گویا آخرت کے طالب کا کام یہ نہیں کہ وہ محض گوشوں میں جاکر عبادت اور آہ و زاری میں لگ جائے۔ نہیں، وہ آخری سانس تک اللہ کی زمین میں پودے لگانے اور جس میں اسے خلیفہ بنایا گیا ہے، اسے آباد کرنے میں لگا رہے، اسی لیے جو لوگ نبیؐ کی معرفت، اللہ سے جنت کے عوض اپنی جان و مال کا سودا چکانے کے بعد دنیا میں نکلے۔

انھوں نے دنیا کی بہترین، اعلیٰ ترین تہذیب کی تعمیر وتشکیل کی۔ یہ تہذیب اتنی پایدار ثابت ہوئی کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ خدا سے بے نیاز، تہذیب کا اعلیٰ نمونہ رومن امپائر ہے۔ مغربی تہذیب بھی اس کو اپنا مورث اعلیٰ تسلیم کرتی ہے۔ اس کو اپنے عروج تک پہنچنے میں تقریباً 600 سال لگے، مگر ایک صدی میں بکھر کر رہ گئی۔ خدا پرست اسلامی تہذیب… جو اللہ اور اس سے ملاقات کے یقین اور رسولؐ کے اتباع پر قائم ہوئی… 80 سال کے عرصے میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اس کا زوال ایک ہزار سال کے بعد شروع ہوا، اور اپنی پندرھویں صدی میں وہ پھر مائل بہ عروج ہے۔

یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ نبی کریمؐ کی زندگی بعد موت کے لیے تیاری کی دعوت کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان پس ماندہ رہیںگے۔ وہ دنیا کا کوئی لطف نہ اْٹھائیں گے، ان کی دنیا اْجڑ جائے گی، اور دنیا میں وہی قومیں غالب اور آگے رہیںگی جو دنیا کے لیے فارغ ہیں۔ نہیں، نبیؐ کے ان پیروکاروں ہی کو دیکھ لیجیے جنھوں نے آپؐ کی اس پکار پر اس طرح لبیک کہا تھا جیسا کہ اس کا حق تھا۔ دنیا کا کون سا کام اور کون سا شعبہ ہے جس میں انھوں نے برتری حاصل نہیں کی۔ وہ دنیا کے بہترین فاتح، حکمران اور منتظم ثابت ہوئے۔ زینت کے طیب سامان میں سے کون سا سامان ہے جو ان کو حدود اللہ کے اندر دستیاب ہوا اور انھوں نے اسے اپنے اْوپر حرام کرلیا۔ انھوں نے ایک طرف اچھے کھانے بھی کھائے۔ قیمتی لباس بھی پہنے، عمدہ مکان بھی بنائے، مال و دولت بھی خوب کمایا، اسے راہِ خدا میں لٹایا تو اپنے اْوپر بھی خوب خرچ کیا اور اپنے گھر والوں پر بھی۔ دوسری طرف شہر بھی آباد کیے، عمارات بھی تعمیر کیں، صنعت و زراعت کو بھی ترقی دی، علوم و فنون کو بھی فروغ دیا۔