مزید خبریں

زکوٰۃ کے چند اہم مسائل

سوال: ایک ہی چیز پر زکوٰۃ ہر سال اور بار بارادا کرنا کیوں ضروری ہے؟
جواب: عبادات میں سے کچھ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہیں، جیسے حج۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’لوگوں پر یہ اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ (آل عمران: 97) ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، اس لیے حج کرو‘۔ ایک شخص نے سوال کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہر سال؟‘‘ آپ نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر میں ہاں کہہ دوں تو ہر سال فرض ہو جائے گا، لیکن پھر تم ہر سال نہیں کر سکو گے‘‘۔ ( مسلم)

لیکن کچھ عبادات وقت اور زمانے کے ساتھ فرض کی گئی ہیں، مثلاً نمازوں کی فرضیت مخصوص اوقات کے ساتھ ہے۔ جب بھی وہ اوقات آئیں گے، نماز فرض ہوگی۔ روزے کی فرضیت ماہِ رمضان کے ساتھ ہے۔ جب بھی رمضان آئے گا،روزہ رکھنا فرض ہوگا۔ اسی طرح زکوٰۃ کی فرضیت اس مال پر ہے جو مالک کے پاس ایک برس تک رہا ہو۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسولؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’مال میں اس وقت زکوٰۃ ہے جب اس پر ایک برس گزر جائے‘‘۔ (ابن ماجہ)
اس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کسی مال پر ایک برس گزرے گا، اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
٭…٭…٭
سوال: زکوۃ کن کن چیزوں پر نکالنا ضروری ہے؟
جواب: زکوٰۃ ’مال نامی‘ ( یعنی بڑھنے والے مال) پر فرض کی گئی ہے:
ـ1۔سونا، چاندی اور ان سے بنی ہوئی چیزیں، جیسے زیورات، برتن،سکّے وغیرہ۔
ان چیزوں کو اسلام میں تجارت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ان پر ہر صورت میں زکوٰۃ لازم ہے، چاہے کوئی ان کے زیورات بنا کر رکھے، یا انھیں ٹکڑوں کی شکل میں محفوظ کرلے۔
ـ2۔نقد رقم، خواہ کرنسی کی شکل میں ہو، یا سرٹیفکٹ، بانڈ وغیرہ کی شکل میں۔
ـ3۔مال تجارت۔

اگر کوئی شخص کسی کارخانے کا مالک ہے تو اس کی ان مصنوعات پر بھی زکوۃ عائد ہوگی جو ابھی فروخت نہیں ہوئی ہیں اور جن کا ابھی اسٹاک موجود ہے۔
اگر کوئی شخص کسی دکان کا مالک ہے تو اس میں موجود تمام اموال تجارت پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
کارخانے میں لگی ہوئی مشینوں اور سامان تیارکرنے والے آلات پرزکوٰۃ نہیں ہے۔
مکان، زمین، جائیداد اگر تجارتی مقصد سے نہ ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
کسی شخص کے پاس کئی مکانات ہوں اور انہیںاس نے کرایے پر اٹھا رکھا ہو، یا کچھ دوسری چیزیں ہوں جنھیں کرایے پر چلاتا ہو تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہاں، اگر بطور کرایہ حاصل ہونے والی رقم، تنہا یا دوسری رقموں کے ساتھ مل کر، نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو زکوٰۃ عائد ہوگی۔
ذاتی استعمال کی چیزوں، مثلاً گاڑی، فرنیچر، برتن، کپڑوں وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں ہے۔
4۔جانور، جو تجارت کی غرض سے پالے گئے ہوں۔ (اونٹ، گائے بھینس اور بکریوں وغیرہ کا الگ الگ نصاب ہے۔)
5۔زمین کی پیداوار، خواہ غلّہ ہو یا پھل، ترکاری وغیرہ۔
اس پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کو عُشر یا نصف عُشر کہتے ہیں۔ اگر پیداوار بارش کے پانی سے یا بغیر سینچائی کے ہوئی ہو تو اس پر عْشر (یعنی 10%) نکالا جائے گا اور اگر سینچائی کی گئی ہو تو نصف عْشر (یعنی 20%) ادا کرنا ہوگا۔
٭…٭…٭

سوال:کیا زکوٰۃ سونا، چاندی، پیسہ، زمین جائیداد کی الگ الگ نکالنا چاہیے؟
جواب: سونا چاندی کا الگ الگ نصاب ہے۔
پیسہ اور زمین جائیداد (اگر تجارت کے لیے ہو) تو اس کی زکوٰۃ نکالنے کے لیے علما نے چاندی کو معیار مانا ہے۔
اگر کسی شخص کے پاس کوئی مال نصاب کو نہ پہنچتا ہو، نصاب سے کم ہو توبعض علما کے نزدیک اس پر زکوٰۃ نہیں۔
اس سلسلے میں علمائے احناف کا مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ سب کی قیمت نکالی جائے گی۔ اگر ان سب کی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر پہنچ جائے تو اسے صاحب نصاب مانا جائے گا اور اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
٭…٭…٭
سوال: زکوٰۃ نکالنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب: زکوٰۃ ڈھائی فی صد (یعنی مال کا چالیسواں حصہ) نکالی جاتی ہے۔
وجوب زکوٰۃ کے لیے شرط ہے کہ مال آدمی کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو۔
بنیادی ضروریات میں یہ چیزیں داخل ہیں:
1۔اپنے اور اپنے اہل و عیال نیز زیر کفالت افراد سے متعلق روز مرّہ کے اخراجات۔
2۔رہائشی مکان، کپڑے، سواری، صنعتی آلات، مشینیں اور دیگر وسائل رزق، جن کے ذریعے کوئی شخص اپنی روزی کماتا ہے۔
3۔بنیادی ضروریات ہر زمانے، علاقے اور افراد کے حالات اور ان کے معیار زندگی کی روشنی میں طے ہوں گی۔
4۔صرف سال بھر کے اخراجات کا اعتبار ہوگا۔
زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ مال اس کے مالک کے پاس ایک سال تک رہا ہو۔ اگر سال کی ابتدا میں اتنی رقم تھی جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی تھی، لیکن سال پورا ہونے سے پہلے وہ ختم ہوگئی تو اس پر زکوٰۃ نہیں عائد ہوگی۔ اگر سال کے شروع میں زکوٰۃ واجب ہونے کے بقدر رقم تھی، درمیان میں کم ہوگئی، لیکن سال کے آخر میں پھر اتنی رقم آگئی جس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے تو درمیان کے چند مہینوں میں رقم کم ہونے سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی۔ مثلاً اگر کسی شخص کے پاس سال کے شروع میں پچاس ہزار روپے تھے اور سال کے آخر میں ستّر ہزار روپے ہوگئے تو اسے ستّر ہزار روپے کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔