مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

مسلمان
آپ اسلام کے مخلص پَیرو اور سچے گواہ ہوں۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا رویّہ یہی رہا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر باربنے بیٹھے ہیں، نہ خود اس سے مستفید ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس کا فائدہ پہنچنے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر نمائندے تو اسلام کے بنے ہوئے ہیں، مگر اپنے مجموعی قول وعمل سے شہادت زیادہ تر جاہلیت، شرک، دنیا پرستی اور اخلاقی بے قیدی کی دے رہے ہیں۔ خدا کی کتاب طاق پر رکھی ہے اور رہنمائی کے لیے ہر امامِ کفر اور ہر منبعِ ضلالت کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ خدا کی بندگی کا ہے اور بندگی ہر طاغوت کی‘ کی جارہی ہے۔ دوستی اور دشمنی، نفس کے لیے ہے اور فریق دونوں صورتوں میں اسلام کو بنایا جا رہاہے۔ اور اسی طرح اپنی زندگی کو بھی اسلام کی برکتوں سے محروم کر رکھا ہے اور دنیا کو بھی اس کی طرف راغب کرنے کے بجاے اْلٹا متنفّر کر رہے ہیں، اور بعید نہیں کہ مستقبل اس حال سے بھی بدتر ہو۔
٭…٭…٭
اسلام یا کفر
اسلام کا لیبل اتار کر کْھلّم کھْلّا کفر اختیار کر لیجیے تو کم از کم آپ کی دنیا تو ویسی ہی بن جائے گی جیسی امریکا، روس اور برطانیہ کی ہے۔ لیکن ’مسلمان‘ ہو کر ’نامسلمان‘ بنے رہنا اور خدا کے دین کی جھوٹی نمائندگی کر کے دنیا کے لیے بھی ہدایت کا دروازہ بند کر دینا، وہ جرم ہے جو آپ کو دنیا میں بھی پنپنے نہ دے گا۔ اس جرم کی سزا جو قرآن میں لکھی ہوئی ہے، جس کا زندہ ثبوت یہودی قوم آپ کے سامنے موجود ہے، اس کو آپ ٹال نہیں سکتے، خواہ متحدہ قومیت کے ’اہون البلیتین‘ کو اختیار کریں یا اپنی الگ قومیت منوا کر وہ سب کچھ حاصل کرلیں جو مسلم قوم پرستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ٹلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اِس جْرم سے باز آجائیے۔
٭…٭…٭
اجتماعی سعی
اسلام کے سب تقاضے انفرادی طور پر پورے نہیں کیے جا سکتے۔ اِس کے لیے اجتماعی سعی (کوشش) ضروری ہے۔ دین کا ایک بہت ہی قلیل حصہ انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو تم نے قائم کر بھی لیا تو نہ پورا دین ہی قائم ہوگا اور نہ اس کی شہادت ہی ادا ہو سکے گی۔ بلکہ جب اجتماعی زندگی پر نظامِ کفر مسلّط ہو تو خود انفرادی زندگی کے بھی بیش تر حصوں میں دین قائم نہ کیا جا سکے گا اور اجتماعی نظام کی گرفت روز بروز اس انفرادی اسلام کی حدود کو گھٹاتی چلی جائے گی۔ اس لیے پورے دین کو قائم کرنے اور اس کی صحیح شہادت ادا کرنے کے لیے قطعاً ناگزیر ہے کہ تمام ایسے لوگ جو مسلمان ہونے کی ذمے داریوں کا شعور اور انھیں ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، متحد ہو جائیں اور منظم طریقے سے دین کو عملاً قائم کرنے اور دنیا کو اس کی طرف دعوت دینے کی کوشش کریں اور ان مزاحمتوں کو راستے سے ہٹائیں جو اقامتِ دین و دعوتِ دین کی راہ میں حائل ہوں۔
٭…٭…٭
ہماری دعوت
ہماری کوشش یہ ہے، کہ اول تو ایک ایک شخص اسلام کا زندہ گواہ ہو، پھر ان افراد سے ایک ایسی منظم سوسائٹی نشو ونما پائے جس کے اندر اسلام اپنی اصل اسپرٹ میں کام کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہو، اور بالآخر یہ سوسائٹی اپنی جدوجہد سے نظامِ باطل کے غلبے کو مٹا کر وہ نظامِ حق قائم کرے جو دنیا میں اسلام کی مکمل نمایندگی کرنے والا ہو۔ (حکمت مودودی، ترجمان القرآن، نومبر 2014)