مزید خبریں

شہباز حکومت اداروں سے تعاون اور سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے کے نتیجے ہی میں5برس چل سکے گی

کراچی (رپورٹ :خالد مخدومی ) اس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویش ناک ہیں، اسپشل انوسٹمنٹ فیسٹیلیشن کونسل (ایس آئی ایف سی )کوحاصل اختیارات حکومت کے چلنے کی ضمانت ہیں ، الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے حکومت کے اخلاقی جواز پر بات ہو رہی ہے،موجودہ ٖحکومت میںجماعتوں کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کی شراکت بھی دکھائی دیتی ہے، اداروں سے تعاون کے ساتھ ساتھ حکومت سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے کے نتیجے میں ہی 5 سال چل سکے گی،شہبازحکومت ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرتے ہوئے اپنی مدت پوری کرے گی حکومت کو مقتدرہ سے اچھے تعلقات رکھنے ہوںگے حکومت کو سیاسی تقسیم سے نمٹنا ہوگا، عام انتخابات کی قانونی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات شہباز حکومت کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف صحافی سجاد میر ،ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی ، کالم نگار سعد اختر ،معروف مضمون نگارانوار حیدر اور مسلم لیگ ن کراچی کے جنرل سیکرٹری ناصر الدین محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیاجن میں ان پوچھاگیاتھاکہ ،شہباز حکومت نادیدہ قوتوں کے سہارے کب تک چل سکتی ہے؟سینئر تجزیہ کار سجاد میر نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ موجودہ ٖجکومت میںجماعتوں کے ساتھ ساتھ مقتدرہ کی شراکت بھی دکھائی دیتی ہے اور اس حکومت اور وفاقی کابینہ کی تشکیل مشکل معاشی فیصلے، امن و امان کے قیام اور سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کی گئی اس کی سب سے بڑی مثال اسحاق ڈار کا وزیرِ خزانہ نہ بننا ہے جو کہ نواز شریف کے تمام ادوار میں خزانہ کے امور دیکھتے رہے ہیں۔جب کہ کہ معیشت کے ماہر محمد اورنگزیب کو وزیرِ خزانہ بنانے سے دکھائی دیتا ہے کہ حکومت معاشی مشکلات اور آئی ایم ایف سے معاملات کو سنجیدگی سے لینا چاہتی ہے۔ انہیں ادراک ہے کہ اسحاق ڈار کی پالیسیاں موجودہ حالات میں کام نہیں کر پائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت کو5 سال کی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے آنا ہو گا موجودہ حکومت میں شہباز شریف زیادہ مضبوط وزیرِ اعظم ہیں اور کابینہ میں بھی انہیں ہم خیال لوگوں کی وجہ سے کم مشکلات کا سامنا رہے گا۔ان کا کہناتھاکہ اداروں سے تعاون کے ساتھ ساتھ حکومت سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے کے نتیجے میں ہی 5 سال چل سکے گی۔مسلم لیگ ن کی مرکزی ورکنگ کونسل کے رکن اور کراچی کے جنرل سیکرٹری ناصر الدین محمود نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اس وقت شہبازحکومت کو پیپلز پارٹی سمیت اور بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور ان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بھی بہت اچھے ہیں، ماضی میں ن لیگ کا اسٹیبلشمنٹ سے ایک تنائو رہا ، تعلقات کشید ہ بھی رہے ہیں ابھی بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شہبا زحکومت کو بنے ابھی شاید ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا ہے لیکن ابھی تک اچھے انداز میں اچھی انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ آگے بڑھا جا رہا ہے اس میں ملک میں سیاسی استحکام لانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے،توقع ہے کہ شہباز حکومت نہ صرف یہ اپنی مدت پوری کرے گی بلکہ کوترقی کے رستے پر لے جائے گی معروف کالم نگار انوار حید رنے جسارت کے سوال کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ اس بار کمزور حکومتی اتحاد کو درپیش مسائل اور چیلنجز پہلے کی نسبت زیادہ تشویش ناک ہیں۔ ان کے پہلے دورِ حکومت میں کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا اور ان کی نئی حکومت کو بھی متوقع طور پر پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رہا یہ سوال کہ حکومت کتنے عرصے چلے گی اس کا فیصلہ آئندہ اس آنے والے 4-6 ماہ کے حالات سے ہو جائے گا۔ان کے بقول حکومت حریف سیاسی جماعت سے مفاہمت تو چاہتی ہے، لیکن مخالف جماعت کے مزاج کو دیکھتے ہوئے ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا، اس صورت حال میں حکومت کو سیاسی تقسیم سے نمٹنا ہے جس کے لیے دیکھنا ہو گا کہ حکومت بات چیت سے نمٹتی ہے یا طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقتدرہ سے اچھے تعلقات برقرار رکھے اور تعاون کا سلسلہ جاری رہے۔ اس وقت حکومت کے اسٹیبلشمنٹ سے مثالی تعلقات ہیں، لیکن ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ مدت کے وسط میں آ کر حکومت اور فوج کے درمیان تعاون جاری نہیں رہتا جس کے باعث بحران پیدا ہو جاتا ہے۔معروف ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ یہ حکومت کب تک چلے گی۔ کوئی مہینوں کی بات کرتا ہے تو کوئی ایک2سال تک حکومت کو دے رہا ہے، الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے حکومت کے اخلاقی جواز پر بھی بات ہو رہی ہے اور یہ سوال اْٹھایا جا رہا ہے کہ ایسی حکومت جو مبینہ دھاندلی کا نتیجہ ہو کیسے سیاسی اور معاشی استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ ان سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن جتنا اس حکومت کو کمزور سمجھا جا رہا ہے حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ہے۔اگر حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں کامیابی کے درست سفرکا تعین کر لیتی ہے اور تو پھر یہ ایک مضبوط حکومت ہی رہے گی۔ لیکن اگر شہباز حکومت مشکل فیصلے کرنے سے کتراتی رہی، معاشی مشکلات کو حل کرنے میں ناکام رہی، ٹیکس نیٹ نہ بڑھا سکی، کھربوں کا نقصان دینے والے قومی اداروں کی نجکاری نہ کر سکی تو پھر یہ حکومت نہیں چل سکتی۔ معاشی مشکلات کا حل فوری تو ممکن نہیں لیکن چند ہفتوں، مہینوں میں حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں کو دیکھ کر اس بات کا تعین ہو جائے گا کہ شہباز حکومت کا مستقبل کیا ہو گا۔ معروف کالم نگار سعداخترکا کہناتھاکہ حکومت کا چلنا نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے لیے ضروری ہے بلکہ ملک بھی اب کسی قسم کا سیاسی بحران برداشت نہیں کر سکتا۔یہ حکومت یوں بھی چلتی دکھائی دیتی ہے کہ بظاہر پنجاب میں مسلم لیگ ’ن‘ کی اکثریتی حکومت ہے اور اس حکومت کو عددی اعتبار سے کوئی خطرہ نہیں ایسے میں معاشی تقاضے اپنی جگہ مگر آئینی تقاضے کیسے پورے ہوں گے یہ بہرحال ایک بڑا چیلنج رہے اگرچہ آ رمی چیف سید عاصم منیر کہہ چکے ہیں کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت کے اپنے وعدے پر قائم ہیں اسے نہیں توڑیں گے لیکن حالات بتا رہے ہیں ، تجزیہ نگاروں کا بھی خیال ہے کہ کہیں نہ کہیں اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت موجود ہے۔ جس کا اب خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ ایسا لائحہ عمل بن جانا چاہیے کہ پھر کبھی مارشل لا نہ آئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر حکومتیں آتی جاتی نہ رہیں۔