مزید خبریں

آئین اور قانون پر چلنے کا حلف اٹھایا ہے نہ کہ پالیسی پر،چیف جسٹس

اسلام آباد (صباح نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم نے آئین اور قانون پر چلنے کا حلف اٹھایا ہے نہ کہ پالیسی پر، کیا بسترمرگ پر موجود بیمار آدمی کو گھر سے باہر پھینکنا چاہیے، کیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے، کیوں ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ زمین حاصل نہیں ہوسکتی، اگر صنعتی یونٹ موجود ہے تواس کو خرید لیں، ہم اپنے طریقے سے کیس چلائیں گے ورنہ شام تک کیس چلے گا، عدالت نے ایل ڈی اے کی جانب سے سرکاری استعمال کے مقصد کیلیے زمین کے حصول کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواستیں خارج کردیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریونیو ایمپلائز کوآپریٹو ہائوسنگ لمیٹڈ و دیگر کی جانب سے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو غلط ہوا ہے عدالت عظمیٰ اس کی توثیق نہیں کررہی، آرای سی ایچ ایس راولپنڈی کے بحریہ ٹائون راولپنڈی کے ساتھ انضمام سے متعلق پرویز الٰہی کا کام بالکل غلط تھا، سب گند کی جڑسوسائٹی والے ہیں، زرعی زمین کوشہری مقاصد کے لیے تبدیل کرنے کے معاملہ پر ہم الگ حکم جاری کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جمعرات کو لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کی جانب سے اپنے ڈائریکٹر جنرل کی وساطت سے لینڈ اکوزیشن کلیکٹر لاہور اور دیگر کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ کیا اتنے سال بعد بھی کیس باقی ہے، کون سی زمین کس مقصد کیلیے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ایل ڈی اے ایونیو 1 سوسائٹی کیلیے زمین چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 2002ء میں زمین حاصل کی، حقائق بتادیں زمین کس مقصد کیلیے چاہیے تھی۔ وکیل نے کہا کہ حکومتی ملازمین کی رہائش کیلیے جگہ چاہیے، 1500 ایکڑ زمین چاہیے تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا زمین مل گئی ہے، معاوضہ دے دیا ہے؟۔ وکیل نے کہا کہ معاوضہ دے دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ آپ زمین حاصل نہیں کرسکتے، ہائیکورٹ نے آپ کو کیا تکلیف دی کہ آپ زمین حاصل نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1500 ایکڑ میں سے کتنی زمین بچ گئی ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ 60 کنال بچ گئی ہے جو کہ 7 ایکڑ بنتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کیوں ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ زمین حاصل نہیں ہوسکتی، اگر صنعتی یونٹ موجود ہے تواس کو خرید لیں۔ یہ کھبی نہ کیا کریں کہ معاملہ دوسرے پر ڈال دیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ مقدمہ بازی کی وجہ سے ہم زمین حاصل نہیں کرسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی ویلیو کے مطابق زمین خرید لیں، عدالت عظمیٰ کا وقت ضائع کررہے ہیں ، ہائیکورٹ کے ایک رکنی اور 2 رکنی بینچ کا وقت ضائع کرنے پر کتنے ملین جرمانہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا لینڈ اکوزیشن کلیکٹر سرکاری ملازم ہے کیا وہ بد دیانت ہے، کیا لینڈ اکوزیشن ایکٹ درخواست گزار پر لاگونہیں ہوتا؟۔ وکیل نے بتایا کہ لینڈ کلیکٹر نے موقع کا دورہ کر کے بتایا کہ وہاں ایک 8 کنال پر گھر بناہوا ہے جس میں ماضی کے اداکار افضال احمد موجود تھے اور وہ بیمار تھے اور بستر مرگ پر تھے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا بستر مرگ پر موجود بیمار آدمی کو گھر سے باہر پھینکنا چاہیے، کیا آئین اس کی اجازت دیتا ہے؟۔ پہلے آئین کا آرٹیکل 24 اور 25 پڑھیں پھر اپنی آئینی پوزیشن بتائیں۔ کیوں چاہتے ہیں کہ آپ کے خلاف چیزیں لکھیں، کیاآپ اخلاقی طور پر درست کر رہے ہیں۔ جتنے مزید دلائل دیں گے ہم اتنا زیادہ جرمانہ کریں گے، ہم نے آئین اور قانون پر چلنے کا حلف اٹھایا ہے نہ کہ پالیسی پر۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ 1493ایکڑ زمین مل چکی ہے صرف 7ایکڑ باقی بچتی ہے۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کو رہائش فراہم کرنے کیلیے ضروری سرکاری استعمال قانون کے تحت زمین حاصل کی گئی۔ 29ستمبر2004کو لاہورہائی کورٹ نے فیصلہ دیا جس کے بعد لینڈ اکوزیشن کلیکٹر نے 27دسمبر 2004کو اپنی رپورٹ دی اور بتایا کہ موقع پر صنعتی یونٹ اور گھر بھی موجود ہے۔ عدالت نے قراردیا کہ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے درست طور پر درخواستیں خارج کیں۔ عدالت نے قراردیا کہ 2 ہائی کورٹ کے 2 فیصلوں میں کوئی غیر آئینی اورغیر قانونی کام نہیں ہوا۔ عدالت نے ایل ڈی اے کی درخواستیں ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خار ج کردیں۔