مزید خبریں

یوم مئی اور حکومتی دعوے

سال تو سارا ہی گمنامی میں کٹ جاتا ہے
بس ’’یکم مئی‘‘ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں

مزدور کہنے کو تو ایک محنت کش اور غریب طبقہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تو یہ بہت ہی قابل احترام ہے۔ یہ اپنی دن رات کی محنت سے وہ کارنامے انجام دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن اس کے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو اس کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کی محنت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ محنت کش افراد گھروں اور عمارتوں کو حسین اور خوبصورت بنا کر ملک اور شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنے خون پسینے کی محنت سے وہ غلہ اور اناج تیار کرتے ہیں جو ہماری صحت کا ضامن بنتا ہے۔ مزدور اپنے رزق کی خاطر دوسروں کے گھروں کی تعمیر میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنے لیے زمین پر ایک گھر بھی نہیں بناسکتے۔ ہمارے معاشرے میں مزدوروں کی مراعات اور سہولیات کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ مزدوروں کے عالمی دن پر جو خاص ان کے لیے سال میں ایک بار آتا ہے اس پر بھی یہ غریب مزدور چھٹی نہیں کرتا۔ اپنے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے نہ سردی، نہ گرمی، نہ بارش،نہ دھوپ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا یہاں تک کہ آرام کی پرواہ بھی نہیں کرتا اور آخری سانس تک محنت کش مزدور ہی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا دامن ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے۔

شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا اپنا گھر کوئی نہیں

مزدوروں کے حقوق پر پروگرام کرنے والے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار کرنے والے جن کے بچوں کے علاج بھی دوسرے ممالک میں ہوتے ہیں، مزدور کے روز و شب سے واقف نہیں ہوتے اور اس دن مزدوروں کے حق میں لمبی لمبی تقاریر کرنے اپنی شاندار گاڑیوں پر آتے ہیں لیکن صرف تقریروں سے مزدوروں کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔ تقاریر میں حکومتی سطح پر مزدوروں سے بہت سے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن اگلے سال یکم مئی کو مزدوروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ ان سیمیناروں میں اگر کبھی جانے کا اتفاق ہو تو غور کیجیے گا کہ ان تقریبات میں آپ کو وہ حضرات نظر ہی نہیں آئیں گے جن کے لیے یہ تقریبات منعقد کی گئی ہو۔ کیونکہ وہ مزدور ہیں اور انہیں کسی نے دعوت ہی نہیں دی۔ مثال کے طور پر اگر انہیں دعوت دی بھی گئی ہو تو پھر بھی وہ تقریب میں شامل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ وہ تو مزدور ہے اور اْسے پتہ ہے کہ اگر آج کام نہ کیا تو گھر خالی ہاتھ لوٹنا پڑے گا تو بچوں کو کھانا کیسے کھلاؤں گا۔ مزدور بچوں سے ڈرتا ہے کیونکہ بچے ہی اس کا سب کچھ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے ہی لیبر ڈے منانا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس دن کو منانا چھوڑ دیں کیونکہ جن کے لیے ہم یہ دن مناتے ہیں اگر وہ آرام نہیں کرسکتے اور چین کی نیند نہیں سو سکتے تو کیا فائدہ ایسی چھٹی کا اور اس دن کو مزدوروں کے نام سے منسوب کرنے کا۔

تعمیروترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں

آپ خود اندازہ کرلیں گے کہ ہم موجودہ دور میں کتنے نازک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ دنیا کے تقریباً 80 ممالک میں آج یکم مئی لیبر ڈے کے طور پر منایاجارہاہے۔ لیکن کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ نابالغ بچوں سے جو محنت مزدوری کروائی جاتی ہے وہ کس زمرے میں آتی ہے اور نہ ہی کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے ملک میں موجود کتنے ہی بچے محنت مزدوری کرکے اپنا گزر بسر کررہے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی معصوم بچے ہیں جن کے نرم اور نازک ہاتھوں میں کتابیں کھلونوں کی جگہ اینٹ اور سیمنٹ جیسی چیزیں ہوتی ہیں۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے جنہیں میں اور آپ چھوٹا کہتے ہیں یہ اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کا دل بھی کرتا ہے کہ ہم اچھا لباس پہنیں، اچھا کھانا کھائیں، خوشی سے رہیں، پڑھائی لکھائی کریں، کھیلا کودا کریں مگر وقت انہیں ان کے بچپن سے کھینچ کر بڑا ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔

نیند آئے گی بھلا کیسے اسے شام کے بعد
روٹیاں بھی نہ میسر ہوں جسے کام کے بعد

یکم مئی کے دن پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کے مزدور ’’یوم مئی‘‘ کے موقع پر شکاگو کے محنت کش رہنماؤں اور ان کے ہزاروں جانشینوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1886 میں دنیا کے مختلف ممالک کی مزدور تحریکوں میں انسانیت کی بقاء کے لیے اپنی جانیں قربان کردیں۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں سے تقریباً سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور انہیں اجرت بھی بہت کم دی جاتی تھی اور صنعتوں کے مالکان اسی کشمکش میں لگے رہتے تھے کہ مزدور اپنے حق کے لیے آواز بلند نہ کریں۔ اگر کوئی مزدور باقی مزدوروں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا تھا یا پھر مار دیا جاتا تھا۔ لیکن چاہے انسان جتنا بھی ظلم کرلے ایک نہ ایک دن حق غالب آہی جاتا ہے۔ صنعتوں کے مالکان کے خلاف مزدوروں نے تنظیم بنالی اور مطالبہ کیا کہ وہ لوگ 8گھنٹے کام کریں گے۔ اس مطالبے کے اگلے ہی دن کئی مزدوروں کو گرفتار کرلیا گیا اور اْن پر مقدمات درج کردئیے گئے۔ کئی مزدور لیڈروں کو پھانسی اور قید کی سزائیں ہوئیں لیکن آخر کار یہ تنظیم زور پکڑتی گئی، ملازمین کی قربانیوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے آخرکار مزدوروں کا مطالبہ مان لیا گیا اور اب کوئی بھی مزدور 8گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔یکم مئی محنت کشوں کی فتح کا دن ہے۔ شکاگو کے شہیدوں نے محنت کی عظمت کا لازوال نقش قائم کیا۔ اس دن سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومت نے مزدوروں کی تحریک کو کچلنے کے لیے ان نہتوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا اور نہتے مزدوروں پر گولیاں برسادیں۔

مزدور حقوق کے حصول کے لیے مزدوروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بے شمار مزدور موقع پر شہید ہوگئے، بے شمار مزدوروں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ امریکہ کے شہر شکاگو کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں اور بالآخر ان قربانیوں کے نتیجے میں صنعت کاروں اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 1886ء میں بیس گھنٹے مشقت کے بجائے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لینے کا حکم جاری ہوا۔اس طرح مزدوروں کے یہ الفاظ درست ثابت ہوئے اور یوم مئی دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شکاگو کے مزدوروں نے مزدوروں کے حقوق کے لیے بہت بڑی قربانی دی اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم استحصال کو ختم کرنے کی نوید سنائی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹوں میں متعین کروایا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ کسی استحصالی ریاست یا حکومت کے خلاف لڑنا کوئی آسان کام نہیں اور نہتے مزدوروں کا مسلح سپاہیوں سے ٹکرانا نہایت مشکل ہے لیکن جب کوئی شخص یا طبقہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جنگ آزما ہوجاتا ہے تو پھر وہ ہر طاقت سے ٹکرا جاتا ہے لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ دین اسلام میں مزدور کی محنت کی عظمت کا تصور بہت اعلیٰ اور برتر ہے۔