مزید خبریں

حکومت کی ناکام پالیسی اور محنت کشوں کے مسائل

یوم مزدور کے موقع پر 1886 میں شکاگو مزدور شہیدوں کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی جدوجہد، عزم واستقلال اور ہمت و حوصلہ سے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ محنت کش اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں ہر استحصالی قوتوں پر غالب آتا ہے۔ جب کہ مزدوروں کا استحصال کرنے والی قوتیں اپنی تمام تر جھوٹ و دھوکا دہی، مکروفریب اور

ظلم و ستم کے باوجود محنت کے علمبرداروں سے شکست کھاتی ہیں۔
ملک بھر میں محنت کشوں کے لیے سرکاری سطح پر کچھ شعبے یہ ہیں۔

محکمہ محنت: یہ محکمہ فیکٹریوں کے تمام معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ لیکن اس محکمے کے اندر کوئی مکینزم نظر نہیں آتا۔ اس محکمہ کے افسران چاہے مصالحت کارہوں، اتھارٹی ہوں یا کمشنر کمپینسیشن ان کے نوٹسز پر سرمایہ دار رتی برابر کان نہیں دھرتے کیوں کہ انہوں نے اپنے کردار کی وجہ سے اپنی طاقت اور اختیار کو کھودیا ہے۔ یہ مزدوروں کو بری طرح سے پریشان کرتے ہیں۔ اور ہر مسئلہ میں مزدوروں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سالانہ گوشوارہ، ریفرنڈم، دستوری ترامیم اور دیگر کاموں کے لیے یونینوں سے فرمائش کی جاتی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ لیبر ڈپارٹمنٹ کو مزدور ویلفیئر کا محکمہ بنایا جائے۔ جن کے ذریعے سے لیبر قوانین پر مکمل عملدرآمد کروایا جائے۔

سوشل سیکورٹی: سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (SESSI) ایک خدمتی ادارہ ہے۔ اس کے افعال فطرت میں منفرد ہیں۔ بنیادی طور پررجسٹرڈ کارکنوں اور ان کے زیر کفالت افراد کو طبی امداد اور نقد فوائد فراہم کرکے محنت کش طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے، صنعتی اور تجارتی اداروں کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی رجسٹریشن، ملازمین سے کم از کم اجرت پر 6فیصد سماجی تحفظ کے تعاون کی رقم، محفوظ کارکنوں اور ان کے زیر کفالت افراد کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کرتا ہے۔
کارکنوں کو نقد فوائد کی ادائیگی۔ فی سال100روپے فی کارکن تعلیمی فیس میں جمع کروائے جاتے ہیں۔ سیسی میں صرف اسپتال ہی نہیں ڈسپینسریاں بھی کام کرتی ہیں۔ جہاں کی حالت ناقابل بیان ہے۔ معذوری کی رقم اور پنشن کی ادائیگی انتہائی مشکل سے ہوتی ہے۔ شدید بیمار مریض کے علاج کے لیے شہر کے بڑے اسپتالوں میں علاج صرف قانون میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ کیا کمشنر سیسی یہ بتانا پسند کریں گے کہ اس سال بیرون ملک کتنے مریضوں کا اور شہر کے نامور ہسپتالوں میں کتنے محنت کشوں کا علاج ادارے نے کروایا ہے۔ اس نظام کو بھی درست کرنا ہوگا۔

ویلفیئر بورڈ: مزدوروں کی ویلفیئر کے لیے بنائے گئے اس ادارے نے کئی سالوں سے کسی قسم کی کوئی اسکیم کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ہزاروں بیوائیں ڈیتھ گرانٹ کے لیے رو رہی ہیں۔ یتیم بچے کھانے اور لباس سے محروم ہیں۔ جہیز گرانٹ جاری نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں بچیاں شادی کی انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ تعلیمی وظائف نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے ہونہار بچے تعلیم سے محروم کردیے گئے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو اسکول یونیفارم کتابیں، کاپیاں، شوز،بیگ مہیا نہیں کئے جا رہے ہیں۔ ہاؤسنگ سیکٹر میں نئے فلیٹس کا تو دور دور تک کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔

ای او بی آئی: محنت کشوں کی قانون کے تحت ماہانہ بڑھاپا پنشن صرف 10ہزارروپے ہے جو اس مہنگائی کے دور میں بہت کم ہے۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ جسمانی محنت مزدور کرتا ہے۔ اس کے باوجود سب سے کم معاوضہ انہی کو ملتا ہے۔ جس کے باعث وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
سندھ منیمم ویج بورڈ کا کام تمام مزدوروں کے غیر ہنر مند اور ہنر مند کارکنوں کے لیے کم از کم اجرت طے کرنا ہے۔ سندھ کم از کم اجرت ایکٹ 2015کے تحت اجرت کی تاخیر یا عدم ادائیگی سے پیدا ہونے والے تمام دعوائوں کا فیصلہ کرتا ہے۔

مزدوروں کے حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومت نے کم از کم محنت(مزدوری) کی جو حد مقرر کر رکھی ہے۔ مزدور طبقے کا ایک بڑا حصہ اس سے بھی محروم ہے۔ مالی سال 2023-2024 کے مطابق غیر تربیت یافتہ ورکر ز کا کم از کم معاوضہ 32 ہزار روپے ماہانہ مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اگر عملدرآمد ہو بھی رہا ہو تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ 32 ہزار روپے میں کوئی محنت کش اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکتا ہے؟ مہنگائی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کے لیے بھی اپنے مہینہ بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا اور لوگوں کو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑ رہا ہے۔ مزدوروں اور ملازموں کی اْجرت اس قدر ہونی چاہئے کہ کم از کم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں ان کا معیارِ زندگی مالکوں اور آقائوں کے قریب قریب ہو۔دوسرے یہ کہ اْجرت کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ مزدور و خادم اہل و عیال کی اچھی طرح پرورش کرسکے اور اْن کی ضروریاتِ زندگی پوری کرسکے۔

آج پاکستان کے مزدوروں اور کسانوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کو کارکنوں کی ترجمان نہیں کہا جا سکتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو کوئی اسلامی نظام ہے اور نہ ہی عوامی جمہوریت۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اور ساتواں بڑا ایٹمی طاقت والا ملک ہے۔ ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری نے مزدوروں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ خراب حکمرانی کی وجہ سے ہر بااثر شخص عوام کا استحصال کرنے میں آزاد ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے آئین اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے منظور کردہ کنونشنز کے مطابق مزدوروں کو مناسب اجرت، کام کے صحت مند حالات اور مناسب پنشن کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ بلکہ کارکنوں کا اجتماعی طور پر منظم ہونے اور سودا کرنے کا بنیادی حق ہر تنظیم میں نافذ ہونا چاہیے۔ ILO کے منظور کردہ کنونشن نمبر 144 کے مطابق، اداروں کے سربراہان اور حکومت کے ساتھ ساتھ کارکنوں کو بھی پالیسی ساز اداروں میں نمائندگی دی جانی چاہیے۔ ہمارے حکمران طبقے نے محنت کشوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

آج کل نجکاری کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ سنا ہے درجنوں کے حساب سے اداروں کی نجکاری کر دی جائے گی۔ نجکاری سے تین اہم سوال جنم لیتے ہیں۔ نجکاری اعتراف جرم ہے کہ ہم بحیثیت قوم ان اداروں کو چلانے میں ناکام ثابت ہوئے یعنی ہم اتنے نالائق اور نکھٹو ہیں کہ ہم یہ ادارے نہیں چلا سکے۔ نجکاری میں سودے بازیاں ہوں گی، گھپلے ہوں گے اور ملک کو چونا لگایا جائے گا۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ نجکاری کا عمل جواریوں جیسا ہے۔