مزید خبریں

!قوم کی ترقی کا راز کام،کام اور کام میں مضمر ہے

اگرچہ سرکاری ملازمین کو معقول تنخواہیں اور پرکشش الائو نسز اور دیگر سہولیات میسر ہیں اس کے باوجود ان عاقبت نا اندیش سرکاری ملازمین کی عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات اور کارکردگی انتہائی ناقص اور غیر تسلی بخش ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے حالات کار غیر تسلی بخش ہیں ان ملازمین کے اوقات کار لامحدود ، اجرتیں قلیل، سہولیات ناپید اور روزگار کے مواقع انتہائی غیر تسلی بخش ہیں۔ لہٰذا ملک میں تمام اقسام کے کارکنوں کے لیے کام اور محنت کی قدر و قیمت یکساں طور پر واضح ہونی چاہیے۔

کارکنوں اور ملازمین کے اوقات کار سے مراد وہ اوقات ہیں جن کے دوران کارکن یا ملازم اپنے آجر یا ادارہ کے تصرف میں ہو۔ ایک دور میں تو دنیا میں کارکنوں کے لیے مقررہ اوقات کار کا کوئی تصور موجود نہیں
تھا۔ جس کے دوران مرد ، عورتیں ، بوڑھے اور کمسن بچے بلا امتیاز قلیل اجرتوں پر کارخانوں ، کاروباری، تجارتی اداروں حتیٰ کہ کوئلے کی تاریک اور گہری کانوں میں شب و روز غیر انسانی ماحول میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن یورپ میں 19 ویں صدی میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے بعد اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کارکنوں کے اوقات کار کو باقاعدہ کرنا سب سے قدیم قانون سازی میں شمار کیا جاتاہے۔ کارکنوں کے اوقات کار کے بنیادی حق کو 19 ویں صدی میں تسلیم کیا گیا تھا کیونکہ کام کے زائد گھنٹے کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی سماجی زندگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن گئے تھے۔ اس مقصد کے لیے صنعتی اداروں میں کارکنوں سے زائد کام لیے جانے ، ان سے بدسلوکی کے خاتمہ اور اوقات کار کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایک 40 ہفتہ نامی سماجی تحریک چلائی گئی تھی۔جس کے نتیجہ میں فن لینڈ میں سب سے پہلے 1923ء میں کارکنوں کے لیے 8 گھنٹے کام کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ ماہرین صحت کے مطابق انسانی زندگی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے 8 گھنٹے کام ، 8 گھنٹے سماجی سرگرمیوں، عبادت، کھیل کود ، تفریح ،کتابوں کے مطالعہ، موسیقی سے لطف اندوز ہونے اور اہل خانہ اور عزیز و اقارب سے میل ملاقات اور 8 گھنٹے آرام کرنا لازمی ہے۔ جبکہ طبی ماہرین کے مطابق انسانی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک بالغ فرد کو کم از کم 8 گھنٹے پرسکون نیند کی ضروت ہے۔

انجمن اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ عالمی ادارہ محنت (ILO) 1919ء میں اپنے قیام سے ہی دنیا بھر کے کارکنوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ ، سماجی انصاف، عالمی معیار محنت کی تشکیل، باوقار روزگار اور ان کی صحت اور سلامتی کے لیے کوشاں رہا ہے۔ چنانچہ عالمی ادارہ محنت نے 1919ء میں اپنے قیام کے فورا بعد اپنے اولین عہد نامہ (Convention) میں صنعتی اداروں میں کارکنوں کے لیے 8 گھنٹے کے اوقات کار مقرر کیے تھے۔ جبکہ عالمی ادارہ محنت نے اس سلسلہ میں مزید پیش رفت کرتے ہوئے 1930ء میں اپنے دوسرے عہدنامہ نمبر 30 میں شعبہ تجارت اور دفاتر سے وابستہ ملازمین کے لیے بھی 8 گھنٹے کے اوقات کار منظور کئے تھے۔ پاکستان سمیت دنیا کے187 ارکان ممالک پر مشتمل عالمی ادارہ محنت آئینی طور پر ایک عالمی تنظیم کا استحقاق رکھتا ہے اور دنیا بھر میں عالمی معیارات محنت ، کام اور کارکنوں کی فلاح و بہبود کے متعلق قوانین وضع کرنے اور ان پر کارروائی کرنے کا اہل ہے۔حکومتوں، آجران اور کارکنوں کے سہ فریقی مثلث پر تشکیل دئے گئے عالمی ادارہ محنت کو آئینی اصولوں کے اظہار کے لیے ’’کام‘‘ کی بابت بنیادی حقوق کے فروغ کی غرض سے آفاقی معاونت حاصل ہے اور اس کے منظور کردہ تمام عہد ناموں (Conventions) کو آفاقی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔عالمی مزدور قوانین کے مطابق ہر کارکن کے لیے یومیہ کم از کم 8 گھنٹے اور ہفتہ میں مجموعی طور پر 48 گھنٹے کام انجام دینا لازمی ہے جبکہ بعض اوقات ان کے کام کا دورانیہ 12 گھنٹے تک دراز ہوسکتا ہے۔ جس کے لیے کارکنوں کو مروجہ مزدور قوانین کے مطابق اضافی کام کا معاوضہ( Over Time) ادا کیا جائے گا۔

عالمی ادارہ محنت اپنے رکن ممالک میں خواتین کارکنوں کے لیے بھاری مشینری پر کام اور شبینہ اوقات کار (Night Shift) میں کام کی ممانعت کے ساتھ ساتھ کمسن بچوں سے مزدوری کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی صنعتی، تجارتی اور کاروباری ادارے کی ترقی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کے لیے آجران اور کارکنوں کے درمیان حقوق اور فرائض میں توازن برقرار رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے آئین پاکستان کی دفعہ 17 کے تحت کارکنوں کے لیے انجمن سازی کا بنیادی حق فراہم کیا گیا ہے۔ ایک دور میں ملک کے چھوٹے بڑے صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں مضبوط ٹریڈ یونین قائم ہوا کرتی تھیں جو ان اداروں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اجتماعی سودے کاری (Collective Bargaining) کے ذریعہ کارکنوں کی اجرتوں اور ان کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے قانون کے دائرہ میں رہ کر پرامن جدوجہد کیا کرتی تھیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں دور آمریت ، سرمایہ داری نظام کے پھیلاؤ اور صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں بڑے پیمانے پر منفی سیاسی سرگرمیوں کے باعث ٹریڈ یونین تحریک بھی رفتہ رفتہ کمزور ہوگئی ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ماضی کے برعکس ملک کے بیشتر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر پیداواری اداروں میں آجران کی طرح ٹریڈ یونین لیڈرز کی اکثریت بھی ٹریڈ یونین تحریک کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزیوں (Unfair Labour Practice) میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔

یہ نام نہاد ٹریڈ یونین لیڈرز، ٹریڈ یونین تحریک کے بنیادی مقاصد یعنی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود اور اپنے ادارہ کی ترقی اور پیداوار میں اضافہ کے لیے عملی اقدامات کرنے کے بجائے محض الزام تراشیوں ، بیان بازیوں اور تقریروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال کے نتیجہ میں ملک کے اکثر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر پیداواری اداروں میں آجران اور مالکان اور ٹریڈ یونین کے درمیان دیرینہ اور سنگین نوعیت کے تنازعات پیدا ہوگئے ہیں جس کے نتیجہ میں آجران اور کارکنوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف عدم اعتماد، عناد اور مقدمہ بازی کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کا نقصان بالآخر کارکنوں کو اپنی ملازمت سے برطرفی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

یہ نام نہاد ٹریڈ یونین لیڈرز اپنے اداروں کے کارکنوں کے لیے ایک مثالی شخصیت (Role Model) بننے کے بجائے اپنے لیے کام پر حاضری سے استثنیٰ حاصل کرنے۔، اوقات کار کی خلاف ورزی اور کام چوری کرکے حرام خوری میں مصروف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ نام نہاد ٹریڈ یونین لیڈرز بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ٹریڈ یونین تحریک کی آڑ میں کسی قسم کا کام انجام دیئے بغیر “مال مفت دل بے رحم” کی طرح اپنے اداروں سے بھاری تنخواہوں ، پرکشش مراعات اور سہولیات سے پوری طرح لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس قسم کے عاقبت نا اندیش ٹریڈ یونین رہنماؤں کی جانب سے اس غیر منصفانہ مزدور روش (Unfair Labour Practice) نے نا صرف عوامی خدمات کے لیے قائم کیے گئے قومی، صوبائی، خود مختار اداروں اور صنعتی و پیداواری اداروں کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے بلکہ ان کا یہ ناروا عمل ٹریڈ یونین تحریک کے عظیم مقاصد کے لیے بھی بدنامی کا باعث ہے۔ شاید اسی لیے عالمی جفت ساز کمپنی، باٹا شوز کمپنی کے بانی اور دنیا کی ایک شہرہ آفاق کاروباری شخصیت طامس باٹا (1876-1932) نے ایک موقع پر اپنی کمپنی میں کارکنوں کی جانب سے پیدا شدہ ایک تنازعہ اور ہڑتال سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹنے کے بعد خطرات کو بھانپتے ہوئے آئندہ کے لیے اپنی کمپنی اور اپنے کاروبار کی بقاء اور سلامتی کے لیے یہ سنہری اصول وضع کیا تھا کہ’’کام کی جگہ سیاست نہیں‘‘۔