مزید خبریں

پاکستان امریکی دھمکی کے بعد ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہیں کریگا

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) پاکستان امریکی دھمکی کے بعد ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہیں کرے گا‘ ہمارے حکمرانوں میں سیاسی قوت ارادی نہیں‘ اقتدار میں رہنے کیلیے امریکی خوشنودی کو ناگزیر سمجھتے ہیں‘ معاشی بحران کی وجہ سے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج کی بھی ضرورت ہے‘ روس، بھارت اور چین بھی ایران کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے سر پر پابندی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘ ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر اور ماہر بین الاقوامی تعلقات عامہ پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا پاکستان امریکی دھمکی کے باوجود ایران پاکستان گیس پائپ لائن مکمل کرے گا؟‘‘ فرید احمد پراچہ نے کہا کہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ کیا پاکستان کو امریکی دھمکی کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنا چاہیے اس حد تک تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان کے پاس مذکورہ منصوبے کی تکمیل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے‘ ہم انتہائی مہنگی گیس لے رہے ہیں‘ ہماری صنعت تباہ ہو رہی ہے‘ ہمارے گھروں کے چولہے بجھ رہے ہیں‘ عام آدمی پریشان ہے جبکہ 2013ء میں بھی آصف زرداری ملک کے صدر تھے جب یہ معاہدہ ہوا تھا اس معاہدے کے مطابق ایران نے900 کلو میٹر اپنی طرف سے پائپ لائن مکمل کر لی تھی‘ ہماری جانب سے گیس پائپ لائن کا آغاز ہوا تو امریکی دھمکیوں اور دبائو کی وجہ سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا‘ اب اس کام کو چھوڑے ہوئے 11 سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اگر ہم اس معاہدے کو پورا نہیں کرتے تو ایران عالمی عدالت میں جا سکتا ہے اور ہمیں 18 ارب ڈالر کا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے‘ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکا کے دبائو کو ماننے کے لیے کوئی جواز نہیں ہے کہ ہم کس بنیاد پر ان کے دبائو کو تسلیم اور بزدلانہ رویہ اختیار کریں جب ہم اپنے پڑوس سے مقامی کرنسی یا بارٹرسسٹم کے تحت گیس لے سکتے ہیں تو ہم کیوں نہ لیں‘ آئی ایم ایف کو بھی یہی مطلوب ہے کہ ہماری معیشت مستحکم ہو تاکہ ہم ان کے قرضے واپس کر سکیں تو اس کے لیے پھر یہ منصوبہ انتہائی ضروری ہے‘ یہ منصوبہ ہر حالت میں مکمل ہونا چاہیے‘ کسی قسم کا دبائو قبول نہیں کرنا چاہیے‘ پاکستان کو اپنے مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے‘ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت ہے‘ ان کا لب و لہجہ، فدوی قسم کا مودبانہ گزارش ہے یعنی اپنی وفاداری کا ہمیشہ امریکا کو یقین دلاتے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ امریکا کی خوشنودی کی وجہ سے ان کا اقتدار قائم ہے تو ایسے حکمرانوں سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ گیس پائپ لائن منصوبے پر کوئی بڑا قدم نہیں لیںگے‘ وہ اسی طرح ٹال مٹول کر کے معاملے کو آگے لے جائیں گے۔ ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ ایران، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ اب تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ اس حوالے سے 10 سال قبل معاہدہ ہوا تھا‘ ایران میں تو گیسپائپ لائن مکمل کر لی گئی ہے لیکن مسئلہ پاکستان کی جانب سے ہے کیونکہ ہماری خودمختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے‘ مجھے نہیں لگ رہا کہ یہ منصوبہ اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا‘ پاکستان پر امریکا کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا ہے کہ اگر ایران سے تجارت کی تو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اس ضمن میں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس ، بھارت اور چین بھی ایران کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو ان پر پابندیاں نہیں لگ رہیں جبکہ امریکا کا کہنا ہے کہ گیس پہلے ترکمانستان، پھر افغانستان، پاکستان اور بھارت جائے تو اس کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ ایک پرانہ منصوبہ ہے جس کی وہ ہمیشہ حمایت کرتا رہا ہے‘ صرف ایران اور پاکستان تجارت پر اسے اختلاف ہے‘ پاکستان کے سر پر پابندی کی تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ پاکستان کی گردن پتلی ہے جو آسانی سے شکنجے میں آجاتی ہے‘ امریکا کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ جو ملک سیاسی، معاشی طور پر کمزور ہوتا ہے‘ اس کی خود مختاری داؤ پر لگی ہوتی ہے‘ کسی بھی طرح پاکستان امریکی دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے‘ ایرانی صدر کے دورے پر جو مراسلہ جاری کیا گیا اس میں پاکستان کو کھلم کھلا یہ بات کہی گئی ہے کہ ایران سے کسی قسم کی تجارت کی تو آپ پر پابندیاں لگائی جائیں گی‘ اس مراسلے میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ امریکا پاکستان کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے‘ امریکا کی پاکستان سے جتنی بھی تجارت ہوتی ہے‘ وہ کسی دوسرے ملک سے نہیں کی جاسکتی‘ اگر پاکستان پر پابندیاں لگیں تو پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت بھی متاثر ہوگی‘ اگر پاکستان میں اسی کوئی حکومت ہوتی جس میں کوئی دم خم ہوتا‘ جس کی وفاداریاں اپنے ذاتی و پارٹی مفادات کے بجائے ملک کے ساتھ ہوتیں تو پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ ہماری حکومت امریکا کو خاطر میں نہیں لائے گی‘ دراصل پاکستان کی اشرافیہ جس کے مفادات امریکا سے جڑ ے ہیں وہ تو گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ ہونے پر امریکا کو مو رد الزام نہیں ٹھہرائیںگے‘ ایران نے پاکستان پر یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ اگر ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ تکمیل تک نہیں پہنچتا تو پاکستان کو جرمانے کی مد میں 18 ارب ڈالر کا ہرجانہ ادا پڑے گا‘ پاکستان کو اس معاملے پر امریکا سے کہنا چاہیے کہ ہمارے پاس تو دینے کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے اتنی بڑی رقم کہاں سے ادا کریں گے۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے پاکستان کوئی بڑا قدم نہیں اٹھائے گا‘ ایرانی صدر کے حالیہ دورے کے بعد جو پریس بریفنگ دی گئی اس میں گیس پائپ لائن منصوبے کا کہیں کوئی ذکر نہیں‘ بالخصوص امریکا سے اس منصوبے کی منظوری کی درخواست تک نہیں کی گئی جب تک منصوبے کی منظوری نہیں ہوتی اس وقت تک منصوبے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے‘ پاکستان نے ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جبکہ بھارت نے منظوری کے بغیر اس کا اطلاق کیا ہے اور بھارت کو منظوری سے استثنا بھی دے دیا گیا‘ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایرانی صدر کے دروہ پاکستان سے ایسی کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی جہاں پاکستان ایران کے تجارتی تعلقات کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ اس کے حجم میں کوئی بہت بڑا اضافہ ہو، ایسا کوئی معاملہ نظر نہیں آرہا ، ایرانی صدر ابراہیم ریئسی کا دورہ پاکستان ضرور ہوا اور آپس میں گفتگو بھی ہوئی ہے مگر سیاسی طور پر ایران سے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ہماری حکومت میں سیاسی قوت ارادی نظر نہیں آتی‘ اس صورت حال کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے عالمی بینک، آئی ایم ایف بیل آوٹ پیکج کی ضرورت ہے‘ ان مالیاتی اداروں پر امریکا کا بہت اثر و رسوخ ہے‘ پاکستان اس کا سامنا نہیں کر سکتا تاہم بیل آؤٹ پیکج کے لیے ان اداروں کی شرائط کڑی ہوں گی‘ پاکستان پابندیوں کی زد میں آئے بغیر اس منصوبے کو کیسے آگے بڑھا سکتا‘ اس وقت ملکی معیشت مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے ہماری حکومت کوئی بھی واضح پیغام د ینے کے قابل نہیں ہے‘ اس وجہ سے پاکستان کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائے گا جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ ایران کے ساتھ اشراکیت میں باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے‘ پاکستان کو چاہیے امریکا کے ساتھ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے بہتر حکمت عملی کو بروئے کار لائے‘ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اب ہم شاہد ایک بار پھر تنرلی کا شکار ہیں۔