مزید خبریں

وزیر خزانہ کا امریکی دورہ مشرق وسطیٰ کے حالات ،تباہ معیشت سنبھل سکے گی ؟

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب نے امریکا کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو اور امریکی محکمہ خارجہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری الزبتھ ہورسٹ سے ملاقات کے بعد یہی بات کی کہ پاکستان اور پاکستان یو ایس انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن کے ساتھ مل کر کام کرے گا، پاکستان ایگزم بینک کے ساتھ بھی کام کرے گا۔

جس میں پاک امریکا تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اس دورے کے دوران ورلڈ بینک ہیڈکوارٹر میں ہونے والی ملاقات میں وزیر خزانہ نے امریکی عہدیداران کو پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے پر بریفنگ دی۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کی ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، توانائی کے شعبے کو ہموار کرنے اور نجکاری ترجیح ہے۔ملاقات میں متبادل توانائی، زراعت، آب وہوا اور ٹیک انڈسٹری کے معاملات پر بھی گفتگو ہوئی، وزیرخزانہ نے پاک امریکا اقتصادی شراکت داری کو اپ گریڈ کرنے پر بھی زور دیا۔وزیرخزانہ نے آئی ٹی، زراعت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقعوں پر بھی گفتگو کی گئی تھی ۔اس پوری صورتحا ل سے اس بات کی اطلاع آرہی ہے کہ محمد اورنگزیب کی امریکا سے پاکستان آمد کے فوری بعد جو بجٹ سامنے آئے گا اس میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہو گا

وزیر خزانہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ملک آئی ایم ایف کے ساتھ کتنی مالیت کا معاہدہ کرنے کا خواہشمند ہے امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈز کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی کی توقع نہیں ہے۔وزیر خزانہ اس وقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے زیر انتظام ہونے والی موسم بہار کی میٹنگز میں شرکت کے لیے واشنگٹن میں موجود ہیں۔ انٹرویو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں ایک سال میں دیکھی گئی 6 سے 8 فیصد سے زیادہ کمی کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ پاکستان نے جنوری 2023 میں اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کی تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے گزشتہ آئی ایم ایف قرض پروگرامز میں کرنسی کی قدر میں بڑی کمی کی گئی اور دنیا بھر میں اکثر یہ بحران کا شکار قرض پروگرام لینے والے ممالک کے لیے شرط ہوتی ہے، اس مرتبہ ایسا موازنہ کرنے کے لیے ضرورت نہیں ہے۔محمد اورنگزیب نے مستحکم غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر، مستحکم کرنسی، بڑھتی ترسیلات زر اور پائیدار برآمدات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی چیز کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، ایک چیز جو بہت بڑا فرق ثابت ہوسکتی ہے، اگرچہ ہم اپنے اندازوں کے مطابق ٹھیک ہوں، وہ پیٹرولیم منصنوعات کی قیمتیں ہوسکتی ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت یہ امید کرتے ہوئے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت صنعتوں کو سہارا دینے کے لیے کوشاں ہے کہ اس سے ا?نے والے برسوں میں ملک کی شرح نمو 4 فیصد سے اوپر لے جانے میں معاونت ملے گی۔وزیر خزانہ نے اس دوران اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ملک آئی ایم ایف کے ساتھ کتنی مالیت کا معاہدہ کرنے کا خواہشمند ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری معیشت کے لیے مشرق وسطیٰ کے حالات عالمی معاشی بحالی کے لئے بڑاخطرہ بن گئے ہیں تو کیا پاکستان کی معیشت اس سے متاثر نہیں ہو گی ؟
اگر کشیدگی بڑھنے دی گئی توساری دنیا ایک نئے معاشی گرداب میں پھنس جائے گی جس سے اربوں لوگ متاثرہونگے۔ اہم ممالک عالمی معاشی و سیاسی نظام کومکمل طورپر تباہ ہونے سے بچانے میں اپنا کردارادا کریں۔ جنگ کی وجہ سے جہازرانی کا شعبہ بری طرح متاثرہواتھا اور کاروباری لاگت بہت بڑھ گئی تھی مگراب سارا مشرق وسطیٰ ہی مسائل کی لپیٹ میں ہے۔ کشیدگی بڑھنے دی گئی توتیل، گیس اور ٹرانسپورٹیشن کی قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی جس سے عالمی نقل و حمل اور تیل وگیس درآمد کرنے والے تمام ممالک متاثرہونگے اورانکے عوام کومزید مہنگائی کاعذاب برداشت کرنا پڑے گا۔

مشرق وسطیٰ تنازعہ بڑھ رہا ہے جوکوئی بھی صورت اختیارکرسکتا ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ تنازعہ سلگتا رہے گا مگر کوئی بڑی جنگ میں تبدیل نہیں ہوگا مگر پھر بھی پاکستان کو اس سلسلہ میں محتاط رہنا ہوگا۔ دوسری طرف مشکل معاشی حالات کی وجہ سے پاکستان کا عرب ممالک پرانحصار روز بروز بڑھ رہا ہے مگریہ تعلق کسی تیسرے فریق کی قیمت پرنہیں ہونا چائیے۔ موجودہ حالات میں عرب ممالک اورایران سے تعلقات متوازن رکھنا ہماری قیادت کا کڑاامتحان ہوگا جس میں کامیابی واحد آپشن ہے۔ اس سلسلہ میں صدرآصف علی زرداری کا ایرانی ہم منصب سے رابطہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیل اورحماس کے مابین کشیدگی کا دائرہ تیزی سے پھیل رہا ہے اوراب ایران بھی اس معاملہ میں کود گیا ہے۔ اب امریکہ اوراسرائیل اپنے اتحادی ممالک کی مدد سے ایران کو فوجی کی بجائے معاشی سبق سکھانے کی کوشش کریں گے۔ چند ماہ قبل ایران نے پاکستانی سرزمین پرمیزائل حملہ کیا تھا جس میں کچھ افراد ہلاک بھی ہوگئے تھے جس پر پاکستان نے فوری جوابی کاروائی کی تاہم دونوں جانب سے سفارتی کوششوں کی وجہ سے یہ مسئلہ ختم ہوگیا مگراعتماد ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پردہشت گردوں کی مدد کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کا خواہاں ہے جبکہ وہاں لاکھوںاسکی پاکستانی بھی کام کرتے ہیں جس سے پاکستان کوسالانہ اربوں ڈالرملتے ہیں۔ دیگر عرب ممالک میں بھی لاکھوں پاکستانی روزگارکی وجہ سے مقیم ہیں اوربھاری زرمبادلہ بھجواتے ہیں جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان ایران سے قدرتی گیس کا حصول چاہتا ہے اور ایرانی سرحد کے ساتھ پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا روزگار ایران کے ساتھ تجارت سے وابستہ ہے۔ اس لئے ایران کوبھی نظراندازکرنا مشکل ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بظاہرایران سے گیس کی درآمد ناممکن ہے کیونکہ یہ امریکہ کے لئے قابل قبول نہیں مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی کیمپ میں شامل ایک درجن سے زیادہ ممالک ایران سے تجارت کررہے ہیں اس لئے پاکستان کو بھی امید ہے کہ امریکہ جلد یا بدیراسے ایران سے گیس درآمد کرنے کی اجازت دے دیگا کیونکہ گیس نہ خریدنے پر پاکستان کوبیس ارب ڈال تک کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا جواسکے بس کی بات نہیں ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ صدرزرداری نے ایرانی قیادت سے رابطہ کرلیا ہے اوراب وزیراعظم شہباز شریف اور میاں نواز شریف کوچائیے کہ وہ بھی سعودی عرب کواعتماد میں لیں کیونکہ وہ پاکستان میں سب سے زیادہ اسی فیملی پراعتماد کرتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ملک آئی ایم ایف کے ساتھ کتنی مالیت کا معاہدہ کرنے کا خواہشمند ہے امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت کو عالمی مالیاتی فنڈز کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی کی توقع نہیں ہے۔وزیر خزانہ اس وقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے زیر انتظام ہونے والی موسم بہار کی میٹنگز میں شرکت کے لیے واشنگٹن میں موجود ہیں۔ انٹرویو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ روپے کی قدر میں ایک سال میں دیکھی گئی 6 سے 8 فیصد سے زیادہ کمی کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ پاکستان نے جنوری 2023 میں اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کی تھی۔

ملک میں افراط زرکی شرح میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ہفتہ واربنیادوں پر0.79 فیصدکی کمی جبکہ سالانہ بنیادوں پرـ28.54 فیصدکااضافہ ہواہے۔ادارہ برائے شماریات پاکستان کی جانب قیمتوں کے حساس اشاریہ (ایس پی آئی) بارے جاری ہفتہ واررپورٹ کے مطابق 18 اپریل کوختم ہونے والے ہفتہ میں روزمرہ استعمال کے 11 ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور18 کی قیمتوں میں استحکام رہا، اس کے برعکس 22اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، گزشتہ ہفتہ کے دوران آٹے کی قیمت میں 8.97 فیصد، کیلے کی قیمت میں 8.67 فیصد، سب سے کم آمدنی رکھنے والے گروپ کیلئے بجلی کی قیمت میں 7.16 فیصد، انڈو ں کی قیمت میں 6.67 فیصد، ایل پی جی 2.84 فیصد، پیاز1.40 فیصد، سرخ مرچ پاوڈر1.31 فیصد، 5لیٹرکوکنگ آئل 0.45 فیصد، دال مسور0.43 فیصد، اورڈھائی کلوبناسپتی گھی کی قیمت میں 2.5 فیصدکی کمی ہوئی۔اس کے برعکس آلو کی قیمت میں 17.07 فیصد،ٹماٹر12.67 فیصد، چکن 11.60 فیصد، پرنٹڈلان 3.55 فیصد، شرٹنگ 3.55 فیصد، لہسن 2.88 فیصد، ڈیزل 2.87 فیصد، بیف 2.56 فیصد، جارجیٹ 1.91 فیصس، دال ماش 1.62 فیصد، اورچینی کی قیمت میں 1.10 فیصدکااضافہ ہوا۔ سب سے کم یعنی 17732 روپے ماہوارآمدنی رکھنے والے گروپ کیلئے قیمتوں کے حساس اشاریہ میں 0.71 فیصد کمی ریکارڈکی گئی ہے، 17733 روپے سے لیکر 22888 روپے، 22889 روپے سے لیکر29517 روپے، 29518 روپے سے لیکر44175 روپے اوراس سے زیادہ ماہوارآمدنی رکھنے والے گروپوں کیلئے قیمتوں کے حساس اشاریوں میں بالترتیب 0.83 فیصد، 0.90 فیصد، 0.79 فیصداور0.70 فیصدکی کمی ہوئی۔صارفین کیلئے قیمتوں کے حساس اشاریہ کاتعین ملک کے 17 بڑے شہروں کی 50مارکیٹوں میں 51 ضروری اشیاء کی قیمتوں میں ردوبدل کی بنیادپرکیاجاتاہے۔
nn