مزید خبریں

جماعت اسلامی کے سوا دیگرجماعتوں میں دستور نہ ہونے کی وجہ سے موروثی سیاست اور اقربا پروری ہے

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) جماعت اسلامی کے سوا دیگرجماعتوں میں دستور نہ ہونے کی وجہ سے موروثی سیاست اور اقربا پروری ہے‘ مقبول سیاسی رہنما کو جیل میں ڈالنے، جلا وطن کرنے اور دار پرلٹکانے سے موروثی سیاست نے جنم لیا‘ برادری، سرداری اورپیری مریدی سسٹم نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے‘جمہوریت اداروں کی محتاج ہے ‘ جماعت اسلامی ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ا ن خیالات کا اظہارجماعت اسلامی بلوچستان کے سینئر رہنما، 50 برس میں پہلی بار متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص جنہوں نے جمالی خاندان کو شکست دی، بلوچستان اسمبلی کی جنرل نشست پر جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے انجینئر عبدالمجید بادینی‘ جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی، پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر تاج حیدر‘ سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس‘ سینئر صحافی و کالم نگار عبد اللہ طارق سہیل اور معروف کالم نویس جویریہ صدیق نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا اکثر سیاسی جماعتیں خاندانی، موروثی اور غیر جمہوری کیوں ہیں؟ عبدالمجید بادینی نے کہا کہ موروثی سیاست نے ہمارے نظام کو پوری طرح جکڑ رکھا ہے‘ کوئی بڑی سیاسی جماعت اس موروثیت سے مبرا نہیں ہے‘ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی میں موروثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جماعت اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے‘ موروثی سیاست اس وقت ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور ان کی اولادیں عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں‘ ملک کی موجودہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نصف سے زیادہ ارکان ایسے ہیں، جو اپنے والد یا کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کے باعث منتخب ہو کر آئے ہیں یہ ’موروثی طریقے‘ سے ایوانوں تک پہنچے ہیں‘ موروثی سیاست میں عوام کا استحصال بھی زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ سیاست دان ہمیشہ اپنے مفادات ہی کو مقدّم رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ طاقت اور دولت کے حصول کے خواہش مند ہوتے ہیں‘ میں نے اللہ تعالی کی مدد اور عوام کی تائید سے بلوچستان جعفرآباد سے50 برس بعد موروثی سیاست کو شکست دی ہے‘ علاقے کے سارے بڑے قبیلوں کے سردار، وڈیرے اور با اثر افراد جمالی خاندان کے ساتھ تھے، کوئی ان کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا تھا‘ ہمیشہ ان کے خاندان کے افراد کزن وغیرہ آپس میں الیکشن لڑتے ہیں‘ میں نے لوگوں کو سمجھایا کہ اس تباہی اور بربادی کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جنہیں آپ بار بار ووٹ دے رہے ہیں، جو موروثی سیاست کر رہے ہیں اور 75 برس سے یہ اقتدار میں ہیں‘ اب ان کی تیسری اور چوتھی نسل بھی اسمبلیوں تک پہنچ گئی ہے مگر شہر کی حالت نہیں بدلی ہے تو میں نے انتخابات میں ان کے خلاف میدان میں اتر کر تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف طاقتور سیاسی خاندان، اس کے حامی سردار، جاگیردار اور وڈیرے تھے اور دوسری طرف عام مزدور، دکاندار، ریڑھی بان اور ملازم طبقہ تھا جس کی حمایت سے میں نے انہیں شکست دی ہے‘ پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی میں موروَثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے‘ جماعت اسلامی اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی پارٹی کا بھی دستور نہیں ہے‘ وہ دستوری جماعتیں نہیں ہیں اور انہوں نے دستور ترتیب ہی نہیں دیا ہے اگر ترتیب دیا بھی ہے تو اس میں ان کے اپنے ذاتی، خاندانی اور پارٹی مفادات کا تحفظ ہے جس کی وجہ سے وہ اسلامی اور جمہوری نہیں ہیں‘ جماعت اسلامی پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سید ابوالاعلی موددی نے جماعت اسلامی کی بنیاد دنیوی منفعت کے لیے نہیں رکھی بلکہ صرف کلمہ طیبہ اور اقامت دین کے لیے رکھی ہے اس مقصد کے لیے ایک دستور ترتیب دیا‘ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے انہوں نے یہ تحریک شروع کی تھی تو اسی بنیاد پر الحمدللہ 1941ء سے لے کر آج 2024ء تک جماعت اسلامی کے دستور پر عمل ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی اس وقت ایک سیاسی، مذہبی، تحریکی اور جمہوری جماعت ہے اور ان شا اللہ تا قیامت جماعت اسلامی اپنے دستور پر عمل کرتے ہوئے ایک سیاسی، جمہوری اور اسلامی پارٹی ہونے کا ثبوت پیش کرتی رہے گی۔ تاج حیدر نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں جو ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آج ہمیں میسر ہے وہ موروثی سیاست کی عطا کردہ ہے‘ ابتدا سے ہی ملکِ عزیز میںجمہوریت کا بستر گول کرنے کی کوششیں جاری رہی ہیں، عوام میں جن لیڈرز کو پذیرائی ملی انہیں جیل، جلا وطنی اور پھانسی گھاٹ کا راستہ دکھایا گیا، ان رہنمائوں کا نام گالی بنانے کی کوشش کی گئی‘ سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا اور یہ گناہ بار بار کیا گیا‘ بھٹو کو اقتدار سے نکالا گیا اور پھانسی دی گئی‘ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنمائوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے ظلم سہا، لاٹھیاں کھائیں، جیلیں بھگتیں، اپنے پورے خاندان کو قربان کر دیا ہے تو عوام انہی کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں‘ ہمارے ملک میں موروثی سیاست کے حوالے سے یہ سوچ بھی انتہائی معصومانہ ہے کہ لیڈر اپنے خاندان سے جس کو اپنا جانشین بنا دے گا لوگ سرِ تسلیم خم کر دیں گے‘ ایسا نہیں ہوتا، وراثت تب ہی چلتی ہے جب عوام دل سے قائل ہو جاتے ہیں‘ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ سیاسی موروثیت کا سلسلہ پاکستان کے معروضی حالات کا جبر ہے جس دن مقبول سیاسی رہنمائوں کو راستے سے ہٹانے کا سلسلہ بند ہو جائے گا، جمہوری نظام ہموار ہو جائے گا، تو موروثی سیاست بھی ماند پڑ جائے گی۔ مظہر عباس کا کہنا ہے کہ موروثی سیاست کرنے والے سیاست دانوں کو ہر الیکشن میں ووٹ ملنے کے پیچھے بہت سے عناصر ہوتے ہیں، جیسا کہ پنجاب میں مضبوط برادریوں کا نظام یا بلوچستان میں سرداری سسٹم ہے‘ سندھ اور جنوبی پنجاب میں ’پیری مریدی‘ اور بڑی گدیاں بھی ہیں جہاں اگر پیروں کے خاندان کا کوئی فرد الیکشن لڑ رہا ہو تو ایسا ممکن نہیں ہو پاتا کہ مرید الیکشن والے دن کسی اور کو ووٹ دے آئیں‘ ہر شخص کو سیاست میں آنے کا حق ہے مگر اس میدان میں کامیاب ہونے کے لیے اس شخص میں سیاسی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے‘ مڈل کلاس آدمی کا آج کے حالات میں بطور امیدوار الیکشن لڑنا لگ بھگ ناممکن ہو گیا ہے‘ صرف متحدہ قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی 2 ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو کسی حد تک اپنے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لیے مالی مدد فراہم کرتی ہیں مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو نہ صرف الیکشن لڑنے کے لیے پیسہ خود لگانا پڑتا ہے بلکہ پارٹی کو بھی فنڈز دینے ہوتے ہیں۔عبداللہ طارق سہیل نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مارشل لا، سیمی مارشل لا اور اداروں کی محتاج سویلین حکومت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے، ملک میں جب بھی جمہوریت مستحکم ہونے لگتی ہے مداخلت ہو جاتی ہے‘ طلبہ یونینز سیاست کی نرسریاں تھیں، جہاں سے قائدانہ صلاحیتوں والے نوجوان سیاسی جماعتوں کو میسر آتے تھے لیکن اس نرسریوں کو ختم کرکے گملوں میں قیادت پروان چڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا‘ صرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے، جس میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں‘ باقی جماعتوں میں انتخابات کے نام پر مینجمنٹ کی جاتی ہے ‘ اگر 20 سال تک بغیر کسی مداخلت کے جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے تو پھر ملک کے جمہوری کلچر میں بہتری آسکتی ہے‘ عوام میں تعلیم عام ہونے اور حقوق کی آگاہی تک جمہوری نظام میں بہتری ممکن نہیں۔ جویریہ صدیق نے کہا کہ موجودہ دور میں پاکستانی سیاستدان اپنی اگلی نسلوں کو میدانِ سیاست میں اتار چکے ہیں کیونکہ کچھ ضعیف العمری کی وجہ سے خود سیاست نہیں کر سکتے‘ اس لیے اب اپنا تخت و تاج وہ اپنے بچوں کو منتقل کر رہے ہیں‘ یہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہے لوگ اپنی پسند اور ناپسند کا برملا اظہار کرتے ہیں‘ عوام اس بات پر بڑی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں کہ زیرک بزرگ سیاستدان بھی ہاتھ باندھ کر موروثی سیاست دانوں کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہماری نئی نسل اور عوام کی کثیر تعداد اقربا پروری اور موروثیت کی سیاست کو شدید ناپسند کرتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ لوگ سامنے آئیں جو قابل ہوں‘ جو پاکستان کو عالمی سطح پر نمایاں کر سکیں‘ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو جماعت اسلامی کے ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت ہے وہاں کسی خاندان کی اجاہ داری نہیں ہوتی ہے۔