مزید خبریں

حکام بالا گل کھلا گئے‘PIAڈوب گئی

ہمارا دعویٰ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ پی آئی اے کبھی بھی نقصان میں نہیں رہی ہے یہاں تک کہ کویت عراق جنگ کے دوران بھی پی آئی اے منافع میں جا رہی تھی اور یہ بات آڈٹ کمپنیاں خود کہا کرتی تھیں، جب مڈل ایسٹ کی سو فیصد پروازیں بند ہو چکی تھیں اور امریکہ برطانیہ اور یورپ کی تمام ائیر لائینز نے اپنا مڈل ایسٹ یا مشرق وسطیٰ کا آپریشن بند کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ افریقی ممالک اور مشرق بعید (فار ایسٹ ) کی ائیر لائینز نے مشرق وسطیٰ کا آپریشن بند کر دیا تھا ایسے میں پی آئی اے کے بہادر اسٹاف پائلیٹس اور نیویگیشن افسران نے کمال بہادری اور اعلی ترین پیشہ ورانہ مہارت سے پی آئی اے کا مڈل ایسٹ کا آپریشن جاری رکھا یہی نہیں بلکہ کویت اور عراق سے پاکستانیوں کے ساتھ بھارتی بنگلہ دیشی اور بہت سے یورپی باشندوں کو کویت سے نکالا تھا۔ جس پر عالمی سطح پر پی آئی اے کے پائلٹس اسٹاف اور نیویگیشن انتظامیہ کی بھرپور ستائش بھی کی گئی۔ اس سے زیادہ خطرناک آپریشن کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ جہان بموں کی برسات ہورہی ہو گولیوں کی بوچھاڑ جاری ہو ایسے میں مسافروں سے بھرے ہوئے جمبو جیٹ کو نکال لیا جائے اور ہم وطنوں کے ساتھ دوسرے ممالک کے باشندوں کو دبئی شارجہ العین پہنچا دیا ہو یہ اس چیز کی یاد تازہ کرتی ہے جب سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستانی پائلٹ نے گولیوں کی تڑتڑاھٹ میں بوئنگ 707جہاز ڈھاکہ سے فلائی کرایا تھا۔ جس ائیرلائن کے پاس اتنے جری بہادر اسٹاف و پائلیٹس ہوں ان کی ائیر لائینز کو کیسے نقصان میں چلایا جا سکتا ہے یہ تو عالمی سازش ہے جس کے ساتھ غداران وطن ملے ہوئے ہیں۔

پی آئی اے میں ویسے تو بہت سے ایسے چیئرمین آئے جن کو یہ ٹارگٹ دیا جاتا تھا کہ اس نے پی آئی اے کو ایک تباہ حال ائیرلائن ثابت کرنا ہے ایسے میں ایک چیئرمین طارق کرمانی بھی بھیج دئیے گئے۔ یہ موصوف دنیا بھر میں ایسے رولز ریگولیشن پر نظر رکھتے تھے جن کو لاگو کرنے سے ادارے تباہ ہوجاتے ہیں مثال کے طور پر Bell.Curveپالیسی۔
یہ ایسی تباہ کن پالیسی تھی جس کے ذریعے ادارے کی انتظامیہ ہی الٹ پلٹ اور تہہ و بالا ہو کر رہ جائے۔ اس رولز کے تحت اگر جنرل منیجر چاہے تو جونیئر افسر کو زیادہ نمبر دے کر اسے اپنے ہی منیجر کے سر پر مسلط کردے۔ یعنی اگر میں گروپ سات میں اسسٹنٹ منیجر ہوں اور میرا افسر گروپ آٹھ میں ہے تو جنرل مینیجر مجھے زیادہ نمبر دے کر گروپ نو میں ترقی دے اور کل تک جو میرا باس تھا وہ آج میرا ماتحت بن گیا حالانکہ قابلیت تجربے اور مہارت میں وہ مجھ سے کہیں آگے ہے مگر میں نااہل جونیئر اور کام میں کچا ہونے کے باوجود اپنے ہی باس کا باس بن گیا۔ اب یہاں اگر ایمانداری سے بھی کام لیا جاتا تو بات قابل برداشت تھی مگر یہاں بھی پسند نا پسند ذاتی عناد اور رنجش آڑے آگئی اور اکثر سیکشنز میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جنرل منیجر سے کسی منیجر کی نہیں بنتی تو اس نے کسی بھی نا اہل افسر کو اچھے نمبر دے کر اس کے سر پر بٹھا دیا اس پالیسی کے تحت ظاہر ہے پی آئی اے کا انتظامی ڈھانچہ زمیں بوس ہوگیا سینئر افسران اور اسٹاف کی دل آزاری ہوئی ان کا تندہی سے کام کرنے کا جذبہ بھی مدھم پڑگیا افسران و ورکر بد دلی کا شکار ہوگئے کل تک جو اپنے پروموشن کی آس لگائے ہوئے تھے وہ اچانک جونیئر ہوگئے اور اگلے پروموشن سے مزید دس سال دور ہوگئے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں انتظامی امور کس بری طرح متاثر ہوئے ہوں گے۔

انہی طارق کرمانی کا ایک کارنامہ اور سن لیں ویسے تو یہ پیراشوٹر چیئرمین پی آئی اے میں نت نئے کارنامے اور تجربات ہی کرنے آتے ہیں ان کو ادارے کی بقا و ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا یہ پکنک منانے آتے ہیں اور ملین روپوں میں تنخواہیں اٹھاتے ہیں۔ طارق کرمانی نے مارکٹنگ ڈپارٹمنٹ میں عقل سے عاری پالیسی اپنائی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ موصوف نے جہاز کے اندرونی حصے کے حصے بخرے کردئیے۔ یعنی سیٹ نمبر چار تا بارہ کا ٹکٹ پندرہ ہزار کا، اور سیٹ نمبر تیرا تا بائیس ٹکٹ بیس ہزار کا۔ درمیانی سیٹوں کا کرایہ کم اور کھڑکی والی سیٹوں کا کرایہ زیادہ اسی طرح پورے جہاز میں ایک ہی فلیٹ ایک ہی منزل مگر جہاز کے اندر سیٹوں کے کرائے مختلف اب کرمانی جیسے افلاطون کو کون سمجھائے کہ ایک مسافر نے کراچی سے لاہور جانا ہے اسے آپ اگلی پچھلی درمیانی یا کھڑکی والی سیٹ پر بٹھا دیں۔ پھر کسی کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ آگے بیٹھنے کے زیادہ پیسے دیگا اسے نوز پر بٹھا دو یا ٹیل پر اسے تو لاہور ہی جاناہے۔ پھر مسافر تنگ آکر نجی ائیرلائن کی طرف چلا جاتا ہے کہ وہاں کم از کم ایسی بیوقوفانہ صورتحال سے تو اس کو سابقہ پیش آنے والا نہیں۔

ان کے علاوہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک چیئرمین احمد سعید مرحوم آئے تھے جنہوں نے مزدوروں کے حقوق سلب کرنے شروع کردئیے آتے ہی اعلان کردیا کہ چھ سال سے پہلے تنخواہوں میں اضافہ ممکن نہیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے دعوی’ رہا ہے کہ وہ مزدور دوست پارٹی ہے مگر حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔
اس کے ساتھ موصوف نے آرڈر نکال دیا کہ کسی بھی افسر کا مزدور پر لگایا جانے والا الزام من و عن درست تسلیم کر لیا جائے گا اور مزدور ہی ہر حال میں قصور وار سمجھا جائے گا جبکہ جنرل منیجر اور ایک چپڑاسی دونوں ہی ادارے کے ملازم ہیں، مگر چونکہ مقصد ائیرلائن کو تباہ کرنا مقصود ہو تو ایسی ہی ذہنیت کارفرما نظر آتی ہے۔ کیا افسران کو فرعون بنا کر مزدور کی پشت پر سوار کر دیا جائیگا۔ موصوف نے ادارے کے راز تک سٹی بینک کو دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ فائنائنس ڈپارٹمنٹ کے ذیلی سیکشن فنڈز مینجمنٹ اور جنرل اکائونٹنگ، جہاں ادارے کے سینکڑوں اکاؤنٹس ہینڈل ہوتے ہیں، سٹی بینک کو ان اکاؤنٹس کی چیکنگ کی اجازت دے دی جو ادارے کی اندرونی معاملے میں مداخلت کے مترادف تھا جس کے عوض پی آئی اے سٹی بینک کو خطیر رقوم ڈالرز میں ادا کرتی جو کہ انتہائی غیر ضروری تھا یہی نہیں جب ایک اور جیالے منیجر نے احمد سعید سے استفسار کیا کہ سر، یہ سارے اکاؤنٹس تو ہم دن رات چیک کرتے رہتے ہیں اور پورا سسٹم بنایا ہوا ہے پھر سٹی بینک کی مداخلت کیوں، اس پر احمد سعید نے جیالے منیجر سے طنزاً کہا کہ تم شاید پی آئی اے کے زیادہ ہی خیر خواہ بنے ہوئے ہوپھر احمد سعید نے اس جیالے منیجر کو سرپلس پور میں بھیج دیا یا بالفاظ دیگر اسے معطل کردہااور وہ شخص وہیں سے ریٹائر ہو کر گھر چلا گیا۔
یہ تھے وہ گل جو سیاسی غیر سیاسی پیراشوٹر چیئرمین کھلاتے رہے اور پی آئی اے رفتہ رفتہ زبوں حالی کا شکار ہوتی رہی، انتظامی اور مالی دونوں اعتبار سے۔