مزید خبریں

اللہ کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں پر شکر ادا کرنا ہی اسلام میں تہوار کا صحیح تصور ہے

کراچی(رپورٹ: سید وزیر علی قادری) الحمداللہ رمضان کریم کے اختتام کے بعد آج مسلمان عید الفطر منا رہے ہیں۔ یہ دراصل شکرانے کا ایک عمل ہے ۔ شوال کا چاند دیکھنے کے بعد رب العالمین کے بندے اس کے حضور فجر کی نماز اور صبح صادق کے بعد جمع ہوتے ہیں اور دنیا دیکھتی ہے کہ ہر نسل کا فرد اجتماعی طور پر کھلے میدان میں جمع ہے۔ جسارت نے اس موقع پر مقتدر شخصیات سے سوال کیا کہ ” اسلام میں تہوار کا تصور کیا ہے؟” جن شخصیات نے اپنی رائے کا اظہار کیا ان میں پروفیسر سیما ناز صدیقی سابق صدر شعبہ جیالوجی فیڈرل اردو یونیورسٹی گلشن اقبال کیمپس کراچی، ڈاکٹر شہزاد چنہ دعو ۃ اکیڈمی، پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری سابق صدر شعبہ عربی زبان و ادب جامعہ کراچی و پریذیڈنٹ صفہ انٹر نیشنل آکسفورڈ انگلینڈ،مولانا ثناء اللہ امام جامع مسجد قبا، ڈاکٹر شفیق الرحمن، پروفیسر یونیورسٹی،نور محمد ڈوسکی پرنسپل فاران ماڈرن اسکول و کالج سبی بلوچستان شامل ہیں۔ پروفیسر سیما ناز صدیقی کا کہنا تھا کہ جس طرح اسلام دیگر مذاہب سے بالکل الگ، مختلف، منفرد اور جداگانہ حیثیت کا حامل ہے بالکل اسی طرح اس کے حوالے سے منائے جانے والے تہوار بھی اپنی نوعیت اپنی حیثیت اپنے فلسفے اپنے اثرات اور اپنے مخصوص اثرات کی بنا پر واحد و یکتا ہی نظر آتے ہیں تہوار ہر معاشرے میں بنیادی طور پر خوشی منانے کا دوسرا نام ہے ہماری اسلامی تہذیب اور معاشرے میں خوشی کا مفہوم “عید” ہواکرتا ہے اور خود ہمارے پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ” بیشک ہر قوم کی عید ہے اور یہ (عیدالفطر ،عیدالاضحی) ہماری عیدیں ہیں (صحیح بخاری حدیث نمبر3931) لہٰذا یہ بات تو مستند ہوگئی کہ اسلام میں تہوار صرف 2 ہی ہیں ۔عیدالفطر مسلمانوں کو ماہ رمضان”کے روزوں” کے حوالے سے اور عیدالاضحی “حج”کی تکمیل کے بعد کا تحفہ خداوندی ہے یہ تحفہ ہم مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے وسیع تر اثرات و امتیازات کا بھی حامل ہے دیگر مذاہب کے برعکس ہم مسلمانوں کو اپنے یہ اسلامی تہوار کسی عیش و طرب کسی لہو ولعب کسی اخلاقی قدروں کو پامال کرکے بیجا اخراجات اور دکھاوا کرکے منانے کے بجائے انتہائی سادگی اور درمیانہ راستہ اختیار کر کے اپنے مقررہ اسلامی حدود و قیود میں رہتے ہوئے منانے کا حکم ہے اور اسی میں اصل خوشی ہے ان تہواروں کو جب ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق مناتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہمیں ثواب ملتا ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر روحانی سکون میسر آتا ہے ہماری متعلقہ عبادات ایک طرف ہم میں انفرادی طور پر قرب خدا، رضائے الٰہی کمزوروں اور ناداروں کی مدد ایثار و قربانی جیسے احساسات کو بیدار کرتی ہیں وہاں مسلم امہ میں اجتماعیت یگانگت اور یکجہتی سے مسلمانوں کی طاقت کا انمول مظاہرہ بھی ہوتا ہے مسلمانوں کے یہ تہوار جہاں ان کی روحانی پاکیزگی کی راہ کھولتے ہیں وہاں ان میں جسمانی پاکیزگی اور صفاء کا بھی ایک منفرد ذریعہ بھی ہوتے ہیں المختصر یہ کہ ہمارے یہ اسلامی تہوار ہمارے لیے ایک انمول اور بیمثال تحفہ خداوندی ہیں کاش کہ ہم ان کی اصل روح کو سمجھ کر مناسکیں۔ دعو ۃ اکیڈمی کے ڈاکٹر شہزاد چنہ کا کہناتھاکہ اسلامی تہواروں کافلسفہ اسلامی تعلیمات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عید منانا اور خوشی کا اظہار در اصل اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے۔یہی اسلام میں تہوار کا صحیح تصور ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تہوار اسلامی شعائر اور نبوی فرمان کی روشنی میں منانے کی کوشش کریں۔سابق صدر شعبہ عربی زبان و ادب جامعہ کراچی و پریذیڈنٹ صفہ انٹر نیشنل آکسفورڈ انگلینڈپروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری کے مطابق اسلام میں بڑے تہوار2 ہیں جن سے اسلام میں تہوار کے تصور کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے ایک عید الفطر کا تہوار دوسرے عید الاضحی یعنی عید قربان کا تہوار۔رمضان عید کا تہوار رمضان المبارک کے مہینے میں امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت کتاب ہدایت قرآن مجید کے عطا ہونے کے شکرانے کے طور پر منائی جاتی ہے ۔یکم شوال کو عید الفطر پورے رمضان المبارک کے روزے رکھ کر اس کتاب ہدایت سے بھرپور ہدایت حاصل کرنے کی تیاری کرنے کے بعد اس اعلان کے ساتھ منائی جاتی ہے سب سے بڑی ہستی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے تعریف اور بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لیت ہے اب ہم پوری زندگی قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق گزاریں گے اسی طرح عید قربان کے پس منظر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی زندگی کے وہ مشہور واقعات ہیں جن کی یاد تازہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے دولت مندوں کو حج عمرہ اور قربانی کا حکم دیا کہ کس اللہ تعالیٰ کی اطاعت و تابعداری کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ماں باپ گھر اور وطن کو قربان کردیا اور شرک اور بت پرستی سے انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نار نمرود میں استقامت کے ساتھ کود پڑے ۔ امام جامع مسجد قبامولانا ثناء اللہ نے کہا کہ دین اسلام میں انسانی نفسیات کا خاص خیال رکھا گیا ہے انسان کی طبعی تفریح پسندی کے ناتے سال میں 2 دن مقرر کئے ہیں جس میں حدود و قیود کے ساتھ خوشی کا اظہار بھی ہو اور اور وہ اسلامی تہذیب و اقدار کا آئینہ دار بھی ہو۔ یہ دونوں ایام عبادت کی تکمیل پر منائے جاتے ہیں۔ ان دونوں ایام میں نماز عید شکرانے کے طور پر ادا کی جاتی ہے عید کا اجتماع اتحاد و یگانگت کا مظہر ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ جو تہوار ہوتے ہیں اسلام میں تہوار کا اصل میں پورا پس منظر ہے اور جس پس منظر میں آپ نے سوال پوچھا ہے تو وہ تو رمضان کے فورا بعد ہے یہ تو بہتر کا ایک ہمارا تہوار ہے اور مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالی نے پیغام دیا ہے کہ اس اسلام میں جب بھی کوئی تہوار بنایا جاتا ہے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے یا غم دونوں صورتوں میں جو ہے وہ افراط التفریط سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو انسان نے روزے رکھے ہیں اللہ کی عبادت کی ہے اور اللہ کے احکامات کی اس میں پاسداری کی ہے تو اللہ تعالی خوش ہوتا ہے کہ میرے بندہ ہے اس نے میری تمام جو عبادات جو بھی کیے ہیں اس میں قرآن پڑھا ہے روزے رکھے زکوۃ دی ہے غریبوں سے جو اس نے بہت سارے معاملات طے کیے تو اللہ تعالی کو اس کی بڑی خوشی ہوتی ہے اس کی یاد دہانی کے طور پر جو ہے وہ کہتا ہے کہ اب رمضان کے فوراً بعد جو تمہیں عید الفطر کا دن مل رہا ہے تو اس پر جو ہے تمہیں شکر ادا کرنا چاہیے خدا کا اور جو قرآن تم نے پڑھا ہے اس کو بھی یاد رکھنا چاہیے پرنسپل فاران ماڈرن اسکول و کالج سبی. بلوچستان نور محمد ڈوسکی نے کہاکہ اسلام میں جو تہوار بنائے جاتے ہیں عید الفطر اور عید الاضحی وہ درحقیقت عبادات کے سلسلے میں ہیں ان کا تعلق موسم وغیرہ کے ساتھ بالکل نہیں ہے یا کسی علاقے کے ساتھ بالکل نہیں ہے ،اللہ تبارک و تعالی نے اس امت کے اوپر رمضان شریف کے روزے فرض کیے اور جیسے ہی روزے مکمل ہو جاتے ہیں جو اس کے بعد پھر خوشی منانے کا کہا ہے ،مسلمان بحیثیت امت جب خوشی مناتا ہے تو اس میں بھی عبادت کا رنگ ہوتا ہے تو اس لیے کہ خوشی کا مقام ہے اور روزوں کے بعد ہے تو اس میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے نبیؐ کے ذریعے سے دو رکعت نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اپ بندگی کا اظہار ہو اور بندہ اپنے عاجز ہونے اور بندہ ہونے کا اقرار کرے اور دوسری عید الاضحی ہے جس کو عید قربان بھی کہا جاتا ہے ،غرض اسلام کے اندر تہوار کا تصور بہت واضح ہے اور ہم مسلمانوں کو اس ہی کے مطابق عیدین کا اہتمام کرنا چاہیے۔