مزید خبریں

فطرہ معاشی بہتری اور غریبوں میں خوشیاں بانٹنے کا سبب بنتا ہے

کراچی(رپورٹ: سید وزیر علی قادری)فطرہ کی ادائیگی اسلامی معاشر ے میں غربت کے خاتمے‘تنگ دست افراد کی خوشیوں میں اضافے اور روزہ میں کمی کوتاہی کے ازالے کاسبب بنتی ہے‘اس کی ادائیگی سے اہل ایمان نہ صرف دلی طمانیت محسوس کرتے ہیں بلکہ عید کے دن ان کی خوشیاں بھی دوبالاہوجاتی ہیں‘رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد اس کی برکات وثمرات میں کسی شک کی گنجائش ہی باقی نہیںرہتی‘ مسکینوں اور غریبوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا بھی فطرے کا ایک سبب ہے‘فطرہ کی ادائیگی میںعزیزوقرابت دار اور پڑوس میں رہنے والوں کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے‘انہیں نظرانداز کرنے کی وجہ سے معاشرہ اس کے حقیقی ثمرات سے محروم نظرآتا ہے‘فطرہ کی خصوصیت یہ کے اس کی رقم کم ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت اسے ادا کرنے کے قابل ہوتی ہے‘فطرہ اور زکوٰہ کا ایسانظام بناناچاہیے کہ چند برس بعد فطرہ اور زکوٰۃ لینے والے اوران کی نسلیں زکوٰۃ ادا کرنے کے قابل ہوں۔ ان خیالات کااظہارصحافی ومصنف حنیف عابد‘نائب مدیر اقراتفہیم القرآن مولاناعبدالواحد‘جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی رہنما صبیحہ احتشام‘ سماجی رہنما شگفتہ یوسف‘سیدہ شاہین نزہت نے جسارت
کے سوال فطرہ کی ادائیگی کے معاشرے پرکیااثرات ہوتے ہیں؟کے جواب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ حنیف عابد کا کہنا تھا کہ مسلمانوں پر صدقہ فطر ایک مذہبی فریضے کے طور پر عائد ہے۔ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے جب اس کی ادئیگی کا حکم دیا تو اس کے مفید ہونے میں کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں ہے تاہم اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ آپ کے سوال کے تناظر میں اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معاشرے پر ایک نگاہ ڈالنا ہوگی۔ دنیا میں جتنے بھی معاشرے ہیں وہ کئی طبقات پر مشتمل ہیں ایک دو طبقے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں ایک غریب طبقہ دوسرا مال دار یا قدرے مالدار۔ اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسلام معاشرے میں جہاں دیگر معاملات میں مساوات کا حکم دیتا ہے وہیں انسان کی معاشی حالت کو متوازن بنانے کے لیے زکوٰۃ اور فطرے کا نفاذ کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ رمضان اللہ تعالیٰ سے مغفرت حاصل کرنے کا مہینہ ہے ۔ اس مہینے میں ہمیں خاص عبادات کا حکم دیا گیا ہے جس میں روزہ اور “قیام الیل” زیادہ اہم ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں عبادت کے ضمن میں ہونے والی چھوٹی موٹی غلطیوں اور روزوں کو فضول اور فحش باتوں کے اثرات سے پاک کرنے کے لیے فطرے کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ رمضان المبارک کے اختتام پر مسلمان عید مناتے ہیں اس موقع پر مسکینوں اور غریبوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا بھی فطرے کا ایک سبب ہے۔ اس کے دہرے فوائد ہیں ایک جانب تو یہ معاشرے میں غریب اور ناداروں کو خوشیاں فراہم کرتا ہے دوسری طرف یہ آپ کی عبادات کی طہارت کا بھی ذریعہ بنتا ہے بلکہ احادیث مبارکہ میں تو یہاں تک آیا ہے اگر تنگ دست صدقہ فطر دیتا ہے وہ ا سکی تنگ دستی دور کرنے کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ بد قسمتی ہے ہمارے معاشرے میں اس کی حکمت اور فوائد کو شدت سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت اسے خوش دلی سے نہیں دیتی بلکہ ایک طرح بوجھ سمجھتے ہوئے اس کی کم سے کم شرح کے حساب سے ادئیگی کرتی اور ادائیگی بھی غلط انداز میں اور غلط مقام پر کرتی ہے۔ اکثریت پیشہ ور فقیروں اور گداگروں کو فطرہ کی سب سے کم شرح کے حساب سے ادائیگی کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری اداد کردی ہے۔ ہماری اکثریت فطرہ کی رقم اپنے قریبی عزیزوں اور رشتہ داروں کو نہیں دیتی جس کا واضح حکم دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اثرات جو فطرے کی ادائیگی کے ذریعے معاشرے پر رونما ہونے چاہئیں وہ نہیں ہو پارہے۔مولاناعبدالواحد، نائب مدیر اقراء تفہیم القرآن حسین آباد کراچی کا کہنا تھا کہصدقہ الفطر بنیادی طور پر ارد گرد رہنے والے مساکین کوعید کی خوشیوں میں شامل کرنے کاذریعہ ہے۔ نصابی رقم کے کم ازکم ہونے کی وجہ سے تھوڑی آمدنی رکھنے والے افراد بھی اس کو بآسانی اداکرسکتے ہیں جس سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر صدقہ کرنے کا رجحان پیداہوا کچھ جگہ اس کو اجتماعی طور پر جمع کرکے بڑی رقم مختلف مساکین میں تقسیم کردی جاتی ہے لیکن کہیں اس کانقصان یہ ہوتا ہے کہ بہت سے وہ مستحق لوگ جوانفرادی صدقات کی وجہ کچھ نہ کچھ گزارا کررہے تھے اپنی خودداری کی وجہ سے اجتماعی طورجمع ہونے والی رقوم کوحاصل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ سماجی رہنماشگفتہ یوسف کا کہنا تھا کہ فطرہ کی ادائیگی کا نظام معاشرے کے غریب طبقات میں خوشیاں پھیلانے کا ذریعہ تو ہے ہی لیکن یہ خوشیاں بہت عارضی ہیں دین اسلام کے اندر صدقات و زکواۃ کا جو نظام ہے اس کا مقصد یہ بالکل نہیں کہ لوگ اپنی زکواۃ و صدقات کے ذریعے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرتے رہیں اور لوگ کئی سال تک بلکہ کئی نسلوں تک غریب کے غریب ہی رہیں بلکہ اللہ رب العالمین سورہ البقرہ آیت نمبر 224میں ارشاد فرماتے ہیں کہ( اے ایمان والو!اپنے صدقات کو احسان جتا کر اوردکھ دے کراس شخص کی طرح ضائع نہ کردوجو اپنا مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روز آخرت پر۔ انکے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی،جس پرمٹی کی تہ جمی تھی اس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہ گئی اور صاف چٹان رہ گئی ایسے لوگ خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں اس سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا انکار کرنے والوں کو اللہ سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔) دراصل ہمارے ہاں جب اسلامی نظام معیشت جو کہ سود سے پاک ہو قائم نہیں ہے تو غریب غریب ہے اور امیر امیر ہے۔اسلام ان صدقات وزکوٰۃ کے ذریعے سے ایک نسل سے دوسری سے تیسری نسل تک اس پاکیزہ نظام کو اس طرح پہنچانا چاہتا ہے کہ ایک نسل اگر زکوٰۃ و صدقات لے رہی ہے تو دوسری نسل لازماً صاحب نصاب بن جائے۔ ہمارے اہل علم کو اور دینی جماعتوں کو یہ سوچنا ہے کہ ہم یہ نظام لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ لوگ ایک نسل سے دوسری تک تو زکواۃ لینے والے ہوں لیکن تیسری نسل لازما زکواۃ دینے والوں میںآجائے اور یہ اسی وقت ہوگا جب یہ نظام دینی جماعتیں ان کو بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کریں گی حکومت سے تو کوئی امید ہی نہیں ہے۔الخدمت اس سلسلے میں بہتر کردار ادا کر سکتی ہے اور کر بھی رہی ہے۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی رہنما صبیحہ احتشام نے جسارت سے گفتگو کرے ہوئے کہا کہ صدقہ فطر کے حوالے سے یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ معاشرے کو متوازن سطح پرلانے کا سبب بنتا ہے۔ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ رمضان المبارک میں جو روزے ہم نے رکھے اور اس میں کچھ فضول باتیں ہو گئیں اس دوران جو گناہ ہوئے تو فطرہ کی ادائیگی معافی کا ذریعہ بنتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ عید منانا صرف کھاتے پیتے اور دولت مند لوگوں کا حق نہیں ہے بلکہ غریبوں کا بھی حق ہے تو اس میں امرا اور مالدار لوگ اپنے مال میں سے جو فطرہ نکا لیں اور غریبوں میں عید سے پہلے تقسیم کریں تو ان کے گھروں میں بھی اچھا کھانا پکنے کا اہتمام ہوسکے۔ وہ بھی اچھے کپڑے پہن سکیں ان کے بچے بھی خوش ہو ں تو اس طرح جب سارے ماحول میں خوشی ہوگی تو عید کی خوشی دوبالا ہو جا ئے گی۔ ہم سب کو بھی چاہیے کہ رمضان المبارک میں ہی فطرہ نکال دیں، زیادہ سے زیادہ آخری عشرے میں ادا کردیں تاکہ غریبوں کی جو عید کی ضروریات ہیں جیسے کپڑے، جوتے اور عید کے روز کھانے کا بندوبست ہو تاکہ خدانخواستہ اس روز ان کی کیفیت روزے کی نہ ہو‘وہ بھوکے نہ رہ جائیں ۔ اس طرح جب غریبوں میں خوشیاں پھیلتی ہیں تو اللہ تعالی بھی خوش ہوتا ہے۔ لہٰذا فطرہ کی ادائیگی ایک دینی فریضہ ہے جو جتنا جلدی ادا ہوجائے اچھا ہے۔سماجی رہنما شاہین نزہت نے کہا کہ صدقہ فطر یعنی فطرہ اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جز ہے۔ دراصل رب العزت جو تمام کائنات کے مالک ہیں اور مخلوق کو بحیثیت رازق اپنی منشا کے مطابق نوازتے ہیں جس میں یقینا حکمت الٰہی ہوگی رمضان کریم میں صاحب ثروت کے ذریعے ان گھرانوں کو فطرہ کے ذریعے عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس سے روزوں اور رمضان کریم کی وہ ساعتیں جو اس کی روح کے مطابق ادا نہ ہوسکیں ازالے کا سبب بنتا ہے اور مسلمان معاشرے میں دنیا کے سامنے خوشی و تہوار کا حقیقی تصور سامنے آتا ہے۔ بہرحال حکم ربی اور سنت محمدی صل اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرنا ہر مسلمان مومن مرد و عورت کا فرض ہے۔ غر ض رب کریم نے دین اسلام سے تعلق رکھنے والے اپنے محبوب کی امتیوں کو جن نعمتوں اور برکتوں سے نوازا ہے اس میں فطرہ بھی اس کا ایک ایسا حکم ہے جس میں مسلمانوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔