مزید خبریں

روزے اور عبادت کے حقیقی فلسفے کو سمجھ کرنیکی پر عمل پیرا ہونا ہوگا

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) روزے اور عبادت کے حقیقی فلسفے کو سمجھ کر عمل صالحہ پر عمل پیرا ہونا ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ نے رمضان میں روزوں کی فرضیت کا مقصد حصول تقویٰ قرار دیا ہے‘ ہمیں اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرنا ہوگا‘ لیلۃالقدر میں اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کریں‘ صدقہ فطر ادا کرکے مفلس افراد کی مدد کریں‘ تبدیلی کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ ماہ صیام مسلمانوں کی تربیت کامہینہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی زبیر، بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر گلناز نعیم اور ہائی کورٹ کی معروف وکیل عنبر مہر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’رمضان المبارک کس طرح ملک و قوم کی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے؟مفتی زبیر کا کہنا تھا کہ رمضان میں روزے اور عبادت کے حقیقی فلسفے اور پیغام کو سمجھنے سے معاشرہ میں بھرپور تبدیلی آسکتی ہے‘ رمضان میں روزہ کے دوران کھانے پینے سے رکنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا حلال سے رکنے سے زیادہ حرام سے بچنا ہے‘ حرام سے مراد غصہ، تکبر، گالم گلوچ اور حرام خوری ہے۔ جب انسان حلال یعنی کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا اہتمام کرتا ہے تو اس سے زیادہ ضرور ی ہے کہ روزے میں حرام یعنی غصہ،گالم گلوچ تکبر اور بے جا سختی و بداخلاقی سے احتراز کرے۔ ڈاکٹر گلناز نعیم کا کہنا تھا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت 381اور481 میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت کا حکم دیا اور اس کا مقصد حصول تقویٰ قرار دیا۔ تقویٰ دراصل نفس کو برائیوں سے روکتا ہے۔ ایک صحابی نے رسول ؐ سے فرمایا کہ مجھے ایسا حکم دیجیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اُس سے نفع دے۔آپ ؐ نے ان سے فرمایا کہ ’’روزے رکھا کرو کہ اس کے مثل کوئی عمل نہیں‘‘۔ ملک و ملت کی ترقی و تبدیلی تب ہی ممکن ہو سکے گی جب پہلے ہم خود نفس کی برائیوں سے پاک ہوںاور بحیثیت قوم اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کریں‘ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں، ان پر اپنا مال خرچ کریں۔ گناہوں اور شیطانی وسوسوں سے خود کو بچا کر اپنے ملک و ملت اور اس کے باسیوں کے ساتھ جھوٹ، دھوکا دہی، ناانصافی، ظلم و ستم اور دیگر تمام اخلاقِ رزیلہ سے اجتناب کریں۔ ماہ رمضان کی یہ خوبی ہے کہ اس ماہِ بابرکت میں اللہ کی رحمت و بخشش کا دائرہ کار نہایت وسیع ہوجاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ ماہ مبارک عطا فرما کر مسلمانوں کی سال بھر کی تربیت کا اہتمام فرما دیا ہے اور انہیں گنتی کے چند دن قرار دیتے ہوئے مسلمانوں پر روزے فرض قرار دے دیے۔ یہ چند دن اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کر دیتے ہیں۔ اس دوران روز و شب صیام و قیام میں گزرنے سے جسمانی اور روحانی تربیت کا بہترین انتظام ہوجاتا ہے۔رسول اللہ ؐ کا فرمانِ مبارک ہے کہ جس کسی نے اس مہینہ میں روزہ دار کا روزہ افطار کرایا تو یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہو گا اور روزہ افطار کرانے والے کو ویسا ہی روزے کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ خود روزہ رکھنے والے کو، رمضان کی بابرکت ساعات میں اپنے اور اپنے ملک کے لیے انفرادی و اجتماعی دعا کرنا۔ بالخصوص لیلۃالقدر میں ملکی سلامتی و استحکام کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام کرنا۔ مزید یہ کہ انسان کا اپنا اور اپنے خاندان کے تمام افراد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا، صدقہ فطر ادا کر کے ملک کے مفلس افراد کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ عنبر مہر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ رمضان عربی لفظ جس کے معنی جھلسا دینے والا اور جلا دینے والا کے ہیں‘ اس ماہ مبارک میں اللہ سبحان تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور رحمت سے مسلمانوں کے گناہوں کو جھلسا اور جلا دیتے ہیں اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے کہ رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے رہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے‘ پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔ ہمارا معاشرہ مختلف معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہے‘ سود، رشو ت خوری، سفارش، جھوٹ، ملاوٹ، تعصب، اقربا پروری، خیانت اور دیگر سماجی برائیاں عام پائی جاتی ہیں‘ ہم انسان ہی اچھائی یا برائی کی طرف اپنی نفسانی خواہشات، بری سوسائٹی، الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال یہ سب ہم خود کرتے ہیں‘ ان برائیوں کی وجہ سے پورا معاشرہ پریشانیوں کا شکار ہے کیونکہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے بھی فیصلے پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں‘ ملک و ملت میں تبدیلی کسی فردِ واحد کا کام نہیں‘ معاشرے میں موجود ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘ آج ہمارا معاشرہ جن برائیوں میں گھرا ہوا ہے اُس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان المبارک کے فیوض و برکات حاصل کرکے اسلامی عقائد کو اپنایا جائے اور اعمال صالحہ پر عمل پیرا ہوکر معاشرہ کا ایک اچھا فرد ثابت ہوں اور پھر اسی اچھائی کی دعوت کو عزیز واقارب میں دوست واحباب میں حکمت و تدبر کے ساتھ عام کرنے کی سعی کرے اور اس راہ میں دوستوں کی یا عزیز واقارب کی کڑوی کسیلی باتوں پر صبر کا مظاہر ہ کرے، ایسے لوگ ہی دنیوی واُخروی کامیابی کے حامل ہوں گے۔ احکام کی پابندی کی برکت سے بندگانِ خدا کے قلوب کا تزکیہ اور اصلاح ہوجاتی ہے تو انفاق فی سبیل اللہ کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔آمین