مزید خبریں

اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کی وجہ سیاستدانوں کی نا اہلی ،کرپشن اور بد ترین طرز حکمرانی ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین)اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کی وجہ سیاستدانوں کی نااہلی‘ کرپشن اور بدترین طرز حکمرانی ہے‘ جمہوری انتظامی ڈھانچے میں کمزوریاں ہیں‘ سیاستدان اور ادارے محض کٹھ پتلی بنا کر اپنی طاقت کھو چکے‘ قانون کی نکیل ڈالنے والی عدلیہ خود اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کی پابند ہے‘ پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ میں موجود جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد صرف اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ماہر بین الاقوامی تعلقات عامہ سدرہ احمد اور جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے کیا اسباب ہیں؟‘‘ سدرہ احمد کا کہنا تھا کہ آج کی سیاست، معیشت اور معاشرت جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے شکنجے میں جکڑ چکی ہے اس کے اسباب کو جاننے کے لیے آپ کو پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک کی تمام تر تاریخ کو مدنظر رکھنا ہوگا‘ میں صرف اندرونی اسباب پر تبصرہ کرنا چاہوں گی کیونکہ اندرونی کمزوریوں اور قانون شکنی نے پاکستان کو جس طرح کھوکھلا کردیا ہے اس کا فائدہ بیرونی طاقتیں نہایت سہولت سے اٹھاتی رہی ہیں‘ ملک بننے کے بعد پہلے مارشل لا سے لیکر اب تک جس طرح عوامی رائے، عوامی وسائل اور عوام کے لیے کیے گئے فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ اور کنٹرول رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوری ڈھانچے، جمہوری کلچر اور جمہوری اداروں میں شدید پیچیدگیاں اور کمزوریاں موجود ہیں جس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ نہایت بے باکی سے اٹھاتی رہی ہے‘ جمہوری اداروں، عدلیہ اور انتظامیہ میں نمایاں تعداد انہی افراد کی رہی ہے جو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہیں، جن کے مفادات عوامی مفادات سے یکسر مختلف ہیں اور جن کی نظر میں عوامی عدالت میں جواب دہی کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کے آ شیرباد پر توانا ہونے والے سیاستدان اپنی پارٹی کے نظریے، عوامی سپورٹ اور سیاسی جدوجہد پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی کرائی گئی یقین دہانیوں کی رسم نے سیاستدانوں، انتظامیہ اور عدلیہ کو محض ایک کٹھ پتلی بنا کر رکھ دیا ہے‘ یہ تمام تر شعبے اپنی آئینی ساکھ اور طاقت مکمل طور پر کھو چکے ہیں‘ عوام کی نظر میں آج کوئی ادارہ معتبر نہیں رہا‘ اسٹیبلشمنٹ کی روایتی سوچ، قانون و آئین شکنی اور طاقت کے بیدریغ استعمال نے اس کی اخلاقی حیثیت کو ملک و بیرون ملک صفر کردیا ہے‘ عمومی کمتر شرح تعلیم، بوسیدہ نظام تعلیم، قبائلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر عوامی رائے کی تقسیم، کمزور معیشت اور سماجی سپورٹ کے سسٹم کی عدم موجودگی نے لوگوں میں ملکی معاملات سے لاتعلقی اور عدم دلچسپی پیدا کردی تھی، اس کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ نے بخوبی اٹھایا ہے‘ کمزور طبقات کے اوپر ظالمانہ ٹیکسیسشن، عوامی سہولیات کا فقدان، طاقتوروں کا ماورا قانون ہونا، وسائل سے بڑھ کر آ بادی اور تعلیم و ترقی کے مواقع کے فقدان نے عوام کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد کا محاسبہ کر سکیں‘ علما و اساتذہ کی جانب سے مفاہمت و مصلحت پسندانہ خاموشی نے اخلاقی جرأت کا تقریباً خاتمہ کردیا ہے‘ نظام تعلیم ہو یا نظام انصاف، میڈیا ہو یا ریاستی نظام، کہیں بھی عوام کے بنیادی حقوق و مفادات کے مطابق فیصلہ سازی کی حمایت پر آواز اٹھانے کا جذبہ ناپید ہے‘ ذاتی مفادات عوامی مفادات پر حاوی ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کو قانون کی نکیل ڈالنے والی عدلیہ خود اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کی پابند ہے‘ ذرائع ابلاغ دن رات نہایت بے باکی و سفاکی سے جھوٹ بولنے، جھوٹ چھاپنے اور جھوٹ پھیلانے کو اپنی بقا اور نجات کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار ہوتا ہے تاہم بدقسمتی سے پاکستان میں اس لفظ کو Tabooبنا کر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے‘ ایک مخصوص مکتبہ فکر کے حامل افراد کا یہ کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی سیاست میں بے جا مداخلت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کچھ حقیقت بھی ہے‘ اس کی بنیادی وجہ افسر شاہی کی اپنی اہلیت سے زیادہ سیاستدانوں کی اپنی نااہلی، کرپشن اور بدترین طرز حکمرانی ہے‘ سیاست دان اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے کا سہارا لیتے ہوئے اقتدار کے مزے لیتے ہیں اور اقتدار کے ماہر مخالفت کرتے نظر آتے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ بھی عوامی نمائندوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی نظام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرتی ہے اور یہ سلسلہ اُس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قام نہ ہوجائے‘ اسٹیبلشمنٹ کو مکمل طور پر غیر جانبدار ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندوں کو اپنی طرز حکمرانی کو بہتر کرنا ہوگا۔