مزید خبریں

بیگار کیمپ کی مانند نجی سیکورٹی کمپنیز

وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے نجی سیکورٹی کمپنیاں مختلف اداروں کے ساتھ کام کررہی ہیں۔ جن سے ہزاروں سیکورٹی گارڈز وابستہ ہیں۔ یہ سیکورٹی گارڈز آپ کو مختلف بینکوں، فیکٹریوں، تعلیمی اداروں، شاپنگ مالز، گورنمنٹ و نجی دفاتر اور اسی طرح کے لاتعداد اداروں میں آپ روز دیکھتے ہیں۔ ان سیکورٹی گارڈز میں زیادہ تر مسلح افواج سے ریٹائرڈ افراد ہوتے ہیں۔ ہمارا سروے یہ بتاتا ہے کہ یہ گارڈز جو کہ اپنی جان کو ہتھیلی پہ رکھ کر فرائض سر انجام دیتے ہیں وہ استحصال کا شکار ہیں۔ان نجی سیکورٹی کمپنیز کے مالکان اور انتظامیہ عام طور پر سابقہ فوجی افسران ہوتے ہیں۔ جو مختلف اداروں کے ساتھ کنٹریکٹ کرتے ہیں اور ان کو افرادی قوت مہیا کرتے ہیں۔ان گارڈز کو کم معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔اس میں حکومت کی طرف سے کم سے کم اجرت کابھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس کے علاوہ اوقات کار کی پابندی بھی نہیں کی جاتی۔ زیارہ تر کمپنیز لیبر لاز کی پابندی نہیں کرتیں۔ جس میں EOBI کنٹری بیوشن، سوشل سیکورٹی، انشورنش اور اسی طرح کے دوسرے قوانین جن سے ان گارڈز کو فائدہ حاصل ہو۔ جب ان ملازمین سے کم اجرت پہ کام لیا جاتا ہے تو پھر گارڈز کی استعداد کار کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ جب اسی طرح سے یہ معاملات چلتے رہتے ہیں تو سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو جاتی ہے۔ کمپنیز کم معاوضہ اور زیادہ ڈیوٹی ٹائم کی وجہ سے اداروں کو معیاری گارڈز مہیا نہیں کر پاتیں۔ جس سے اداروں کی ملی بھگت سے کمپنیز لاکھوں روپے ماہانہ کماتی ہیں۔پاکستان میں فوجی فاؤنڈیشن اور پولیس فاؤنڈیشن اب بھی محدود پیمانے پر سیکورٹی گارڈز مہیا کررہی ہیں ،ان کا معیار بھی بہتر ہے۔ تمام رجسٹرڈ سیکورٹی کمپنیز کو پابند بنایا جائے کہ وہ گارڈز کو مناسب معاوضہ دیں اور مقرر کردہ اوقات کار سے زیادہ ڈیوٹی نہ لی جائے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند افراد کو ہی صرف بھرتی کیا جائے۔ تمام متعلقہ اداروں میں بھرتی شدہ گارڈز کو رجسٹرڈ کروایا جائے۔ تمام بھرتی شدہ گارڈز کی قانون کے مطابق لائف انشورنس کروائی جائے۔ گارڈز کو اسلحہ رکھنے اور چلانے کی باقاعدہ تربیت دینی چاہیے۔جہاں بھی سیکیورٹی گارڈز متعین ہوں وہاں مقامی پولیس سے ان کی مکمل کوآرڈی نیشن ہونی چاہیے تاکہ وقت آنے پر وہ پولیس کے تعاون سے جرائم کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا گزارشات پر توجہ دی جائے تاکہ دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ لاء اینڈ آرڈر میں بھی بہتری آسکے۔