مزید خبریں

رسائل و مسائل

عارضی مسجد
سوال: محلے کے لوگوں نے 13 برس قبل ایک مکان خریدا تھا اور اسے مسجد کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ اس میں پنج وقتہ اور جمعہ کی نمازیں پابندی سے ہو رہی ہیں۔ آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے اب مسجد میں جگہ ناکافی ہوتی ہے۔ اس لیے محلے کے لوگوں نے اس کی توسیع کا ارادہ کیا ہے۔ انجینئر صاحب کہتے ہیں کہ مسجد کے موجودہ ڈھانچے کو مکمل منہدم کرکے از سر نو مسجد تعمیر کرنی پڑے گی۔ مسجد کے بائیں جانب ایک مسلمان کا پلاٹ خالی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب تک مسجد کی تعمیر کا کام جاری رہے، کیا اس پلاٹ میں عارضی طور پر مسجد کو منتقل کر سکتے ہیں؟ ایسا کم از کم ایک برس کے لیے ہوگا۔ کسی صاحب نے کہا ہے کہ جس جگہ تین جمعہ کی نمازیں پڑھ لی جائیں وہ مسجد کے حکم میں ہوجاتی ہے، پھر وہاں سے مسجد ہٹائی نہیں جا سکتی۔ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب: کسی جگہ تین مرتبہ جمعہ کی نماز باجماعت پڑھ لی جائے تو وہ جگہ مسجد نہیں بن جاتی ہے۔ مسجد کی تعمیر وقف کی زمین پر ہوتی ہے۔ کسی مسجد کی عمارت خستہ حال ہوگئی ہو اور اسے منہدم کرکے از سر نو تعمیر کی ضرورت ہو تو کوئی حرج نہیں کہ اس سے قریب کسی مکان یا پلاٹ میں عارضی طور پر پنج وقتہ اور جمعہ کی نمازیں ادا کی جائیں۔ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد حسبِ سابق نمازیں مسجد میں ادا کی جائیں گی اور جس مکان یا پلاٹ میں عارضی طور پر نمازیں ادا کی گئی تھیں، اس پر مسجد کا اطلاق نہیں ہوگا، اس کا مالک جس کام میں چاہے اسے استعمال کرسکتا ہے۔

اس سلسلے میں ضروری بات یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے زمین کو باقاعدہ وقف کیا جائے، اس کے کاغذات تیار کروا لیے جائیں، اس کے بعد ہی وہاں مسجد کی تعمیر کی جانی چاہیے۔
٭…٭…٭

عدّت کا حساب کیسے کیا جائے؟
سوال: میرے والد صاحب کا گزشتہ ماہ انتقال ہوگیا ہے، والدہ عدّت میں ہیں۔ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ عدّت ِ وفات کا حساب کیسے لگایا جائے گا؟ شمسی تاریخ کے حساب سے یا قمری تاریخ سے؟ فرض کیجیے، اگر گذشتہ ماہ کی 7 تاریخ سے عدّت شروع ہو تو وہ کب پوری ہوگی؟

جواب: قرآن مجید میں عدّت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: ’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو بیویاں اپنے بارے میں چار ماہ دس دن توقف کریں‘‘۔ (البقرہ: 234)
اس آیت میں صراحت ہے کہ عدّتِ وفات چار ماہ دس دن ہے۔ اس کا حساب قمری تاریخ کے اعتبار سے لگایا جائے گا۔ اس کی دو صورتیں فقہا نے بیان کی ہیں:
ـ1۔اگر وفات ہجری تقویم کے حساب سے مہینے کی پہلی تاریخ میں ہوئی ہو تو قمری کلینڈر کے لحاظ سے چار ماہ ماہ دس دن عدّت ہوگی، خواہ کوئی مہینہ انتیس (29) کا ہی کیوں نہ ہو۔
ـ2۔اگر وفات مہینے کے درمیان میں ہوئی ہو تو ایک سو تیس (130) دن میں عدّت مکمل ہوگی۔ (چار مہینوں میں سے ہر مہینے کو تیس دن کا فرض کرے، پھر اس میں دس دن کا اضافہ کرے۔) (فتاویٰ شامی)
مثال کے طور پر اگر کسی شخص کی وفات 7 جنوری (24 جمادی الاخریٰ) کو ہوئی ہو تو اس کی بیوہ کی عدّت 16 مئی کو مکمّل ہوگی۔