مزید خبریں

اہلِ خانہ کی تربیت

آپؐ گھر میں بیوی بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ خود نوافل و تہجد کا اہتمام فرماتے تو بسا اوقات اہلِ خانہ کو بیدار کرکے اپنے ساتھ شریک کرلیتے۔ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
’’نبیؐ نماز پڑھتے تھے۔ میں آپ کے بستر پر سوئی ہوتی تھی۔ آخر میں جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بیدار کرتے اور میں بھی وتر پڑھ لیا کرتی تھی‘‘۔ (بخاری)

سیدہ امِ سلمہؓ بیان کرتی ہیں: ایک رات نبیؐ بیدار ہوئے۔ اس موقع پر آپ نے ازواجِ مطہرات کو بھی بیدار کرنے کے مقصد سے زور زور سے فرمایا:
’’پاک ہے اللہ کی ذات۔ آج رات کتنے فتنے نازل ہوئے ہیں اور رحمتِ الٰہی کے کتنے خزانے اترے ہیں؟ کوئی ہے جو ان کمروں والیوں کو جگادے؟ کتنی عورتیں ہیں جو اس دنیا میں لباس و زیورات سے آراستہ ہیں، لیکن آخرت میں وہ عریاں ہوں گی‘‘۔ (بخاری)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ایک رات میں اپنی خالہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ بنت الحارثؓ کے پاس ٹھہر گیا۔ اس رات رسولؐ کی باری ان کے یہاں تھیں۔ آپؐ رات میں اٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے سوچا کہ میں بھی آپؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاؤں۔ چنانچہ میں جاکر آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ آپؐ نے میرے بال پکڑے اور مجھے کھینچ کر اپنی دائیں جانب کرلیا۔(بخاری)

گھر میں بیوی بچوں کے درمیان مختلف طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی بات آپؐ ناشائستہ یا غیر معیاری محسوس کرتے تھے تو فوراً ٹوک دیتے تھے اور بیوی بچوں کی محبت اظہارِ حق میں مانع نہ ہوتی تھی۔
ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؐ دوسری ازواج کی موجودگی میں ا ن کا تذکرہ کثرت سے اور بڑی محبت سے کرتے رہتے تھے۔ بسا اوقات عائشہؓ کو اس پر کچھ ناگواری ہوتی۔ ایک موقع پر انھوں نے اس کا اظہار کردیا۔ کہنے لگیں: ’’کیا آپ اس بڑھیا کو بار بار یاد کرنے لگتے ہیں، جب کہ اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیویوں سے نوازا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’ان کی محبت میرے اندر رچ بس گئی ہے‘۔ (بخاری)

دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس موقع پر سیدہ خدیجہؓ کے احسانات یاد کیے اور مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی سے مجھے اولادیں عطا کیں۔
ایک مرتبہ عائشہؓ کے سامنے دوسری ام المؤمنین صفیہؓ کا تذکرہ ہونے لگا۔ صفیہؓ پست قد تھیں۔ عائشہؓ نے تعریض کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کہا: وہ تو بس اس قدر ہیں؟ آپؐ کے روئے انور پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’تم نے ایسی بات کہہ دی ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملادیا جائے تو اس کا پانی بھی کڑوا ہوجائے‘‘۔ (بخاری)
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ایک بار میں نے آپؐ کے سامنے ایک شخص کی نقل اتاری تو آپؐ نے فرمایا:

’’مجھے چاہے جتنی بڑی دولت حاصل ہوجائے، پھر بھی کسی شخص کی نقل اتارنے سے مجھے خوشی نہیں ہوگی‘‘۔ (ابوداؤد)
ام المؤمنین امِ سلمہؓ کے لڑکے عمر (جو ان کے پہلے شوہر ابوسلمہؓ سے تھے) آپؐ کی پرورش میں تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبیؐ کی موجودگی میں کھانا کھارہا تھا۔ میرا ہاتھ لقمہ اٹھاتے وقت پلیٹ میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، آپؐ نے مجھے ٹوکا اور فرمایا:
’’لڑکے، اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ‘‘۔ (بخاری)