مزید خبریں

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

غرور قوت کے نشے کی بلا خیز موجوں میں بہتے ہوئے اپنے جیسے انسان پر ظلم و ستم اور جور و جفا روا رکھنا ہرگز انسانیت کی معراج نہیں ہے بلکہ انسانیت کی معراج کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام انسانوں کو برابری کے اصولوں پر رکھتے ہوئے پر امن بقائے باہمی کا موقع دیا جائے ۔ انسان کی فطرت بھی ایک عجیب شے ہے کہ تکبر و نفرت کے نتیجے میں غرق یا زمین برد ہونے والے فرعون و قارون اور ان جیسی نسل کے لوگوں کا انجام دیکھنے کے باوجود یہی رویے اپنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا بلکہ اس پر مصر نظر اتا ہے ۔

عین اسی چیز کا مظاہرہ ہمیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے خطے میں نظر اتا ہے ۔ جہاں بھارت نے ظلم و استبداد کی نئی داستان رقم کی ہے ۔ اپنی ان ہی کوششوں میں بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا اور اس کے بعد کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کو تبدیل کرنے کی ناپاک سازش اور ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ مگر اس کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آٹھ لاکھ بھارتی بندوقچیوں کی موجودگی ہے جن کے بغیر بھارت ایک دن کے لیے بھی مقبوضہ جموں کشمیر پر اپنا تسلط جاری نہیں رکھ سکتا ۔
یاد رہے کہ یکم جنوری 1948 کو یہ بھارت ہی تھا جو جنگ کے میدان میں خود کو ہارتے دیکھ کر اقوام متحدہ مدد مانگنے جا پہنچا تھا اور وہاں اس شرط کو مانتے ہوئے جنگ بندی منظور کروائی تھی کہ وہ وہاں رائے شماری کرائے گا ۔

اس رویے کی مذمّت کرنے اور اس کو دنیا پر منکشف کرنے کیلئے پاکستان اور ازاد کشمیر کے علاوہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی ہر سال یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے ۔ اس دن تمام دنیا میں بسنے والے پاکستانیوں اور کشمیریوں کی تنظیمیں احتجاجی جلسے منعقد کرتی ہیں اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں غیر ملکی میڈیا اور سفارتی نمائندوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے ۔

کشمیریوں سے یکجہتی کی تاریخ کافی پرانی ہے جب مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں مسلمانوں پر ظلم توڑے جاتے تھے ۔ اپریل 1931 میں ایک امام مسجد کو جو بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے جبرا یہ کہہ کر روک لیا گیا کہ یہ گفتگو عوام میں مہاراجہ کے خلاف نفرت پیدا کر سکتی ہے ۔ نتیجتا پیدا ہونے والے احتجاج کے دوران ایک نوجوان عبدالقدیر نے پرتشدد احتجاج کی کال دی تو اسے گرفتار کر لیا گیا ۔ 13 جولائی 1931 کو جب عبدالقدیر خان کے کیس پر عدالت میں بحث ہو رہی تھی تو پولیس اور مظاہرین کے درمیان ٹکراؤ ہو گیا فائرنگ کے نتیجے میں 21 افراد موقع پر ہی جان بحق ہو گئے انہیں اکٹھے ایک ہی جگہ دفن کیا گیا اس قبرستان کو مزار شہیداں کہا جاتا ہے اور ہر سال ان شہداء کی برسی پاکستان ازاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں منائی جاتی ہے ۔اس موقع پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہندوستان کے طول و عرض میں احتجاج کیا گیا یہ بات اھم ھے کہ علامہ اقبال بھی اس احتجاج میں شامل تھے ۔

ـ1975 میں شیخ عبداللہ نے انڈین حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے اندرا عبداللہ اکارڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس معاہدے کی زیادہ تر شقیں کشمیری عوام اور کشمیر کے خلاف تھیں اور شیخ عبداللہ نے یہ محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے کیا تھا ۔ منافقت اور عوامی اشک شوئی کے طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ جو شیخ عبداللہ 1953 میں رکھا تھا اس سے بھی روگردانی کر لی ۔
پاکستان اور ازاد کشمیر میں اس معاہدے کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری 1975 جمعہ کے دن کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کرنے کے لیے پرامن ہڑتال کی کال دے دی جو انتہائی کامیاب ثابت ہوئی ۔

گزرتے وقت کے ساتھ یہ خیال زور پکڑ گیا کہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک دن مخصوص کر دیا جائے ۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت اور اتفاق کے بعد اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے پانچ فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا ۔ آنے والے سالوں میں یہ مستقل شکل اختیار کر گیا اور اس دن کو سرکاری چھٹی دے دی گئی ۔ اس دن صدر پاکستان یا حکومت کا نمائندہ ازاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہیں ۔
کشمیری کاز کے لیے لڑنے والوں نے جس طرح سے اپنی جانوں کی قربانیاں بھی ہیں اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے ۔ کہ
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو