مزید خبریں

قائد اعظمؒ اور مولانا مودودی ؒ کو سمجھیں

جماعت اسلامی قائد اعظمؒ کے نظریہ پاکستان پر کسی ابہام کا شکار نہیں ہے۔انہوں نے پاکستان کو اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پردیکھا ،مولانا مودودی ؒ بھی ایسا پاکستان دیکھنے کے خواہشمند تھے جہاں اسلامی نظام کا اطلاق کیا جاسکتا ۔جماعت اسلامی نے اپنے قائدین کے نظریات کے تحت اپنی سیاسی بصیرت کو استعمال کیا اور یہ قومی و ملی جذبے رکھنے والی بیدار مغزجماعت ہے جس کا نظام کار بڑا مضبوط ہے۔اسی وجہ سے بیرونی قوتیں ہر دورمیں جماعت اسلامی کو قومی کردار سر انجام دینے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی ہیں کیونکہ جماعت اسلامی نہ صرف انکی سازشوں کا ادراک کر لیتی ہے بلکہ ان عالمی قوتوں کی کمزوریوں اور خواہشات سے فائدہ اٹھانا بھی جانتی ہے۔ 1977ء کی تحریک خالصتاً شرعی انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست مدینہ کے بعد پاکستان خالصتاً مذہب کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا پھر کیسے ممکن تھا کہ کیمونزم کے نفاذ کی سازشوں کو اس سر زمین پر پھلنے پھولنے دیا جاتا ۔لیکن سیاسی نا پختگی کی وجہ سے اسکا مکمل راستہ نہ روکا جاسکا۔ اگر ریاست میں تھنک ٹینک نہیں ہے تو قومی قیادت سے مشاورت کے بعد ہر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ضیاء الحق یا پرویز مشرف اس بات کی اہمیت کو قطعاً نہیں سمجھتے تھے۔جس کی وجہ سے ہم جیتی ہوئی جنگ ہار جاتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومتیں امریکہ کی مرضی سے بنتی ہیں شاید کچھ واقعات ایسے رونما ہوئے تھے کہ یہ چیز ایک حقیقت لگتی تھی۔ امریکہ کو فوجی حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے میں آسانی ہوتی تھی کہ صرف ایک فرد کا حکم ہی پوری ریاست کو ماننا پڑتا تھا۔ میں دوسری جماعتوں کے متعلق کچھ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر جماعت اسلامی کے متعلق پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے حالات کے پیش نظر ٹھیک فیصلہ کیا۔ وگرنہ آج پاکستان میں لادینیت اتنے عروج پر ہوتی کہ سر عام اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جاتا اور مذہب کانام لینے والوں کو پسماندہ اور رجعت پسند قرار دیا جاتا۔

افغان جنگ میں جماعت اسلامی کی بڑی خواہش تھی کہ اس قسم کی جدوجہد مقبوضہ کشمیر میں بھی تیز ہونی چاہئے۔ امریکہ اور دوسری عالمی قوتیں مقبوضہ وادی میں رہنے والے کشمیریوں کو بھی بھارتی تسلط سے نجات دلوائیں مگر ہماری اس وقت کی قیادت اس طرف مکمل دھیان نہیں دے سکی وگرنہ بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ مجھے ایک بات کا ہمیشہ احساس رہا ہے کہ ہم قومی اتفاق رائے کا کلچر آج تک نہیں پیدا کر سکے۔ جس کی وجہ سے پارٹیوں میں بھی آمریت بڑھ رہی ہے اور قومی معاملات میں بھی۔ حکومتی سربراہان آمرانہ رویہ رکھتے ہیں۔ بے لچک رویوں کی وجہ سے ہم بہت کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ آج تک یہی صورتحال ہے۔
جماعت اسلامی ایک معتدل دینی جماعت ہے۔ ہم نے ہمیشہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت کی ہے اور ریاست کا ساتھ دیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھی بھارت کے خلاف ریاست کا ساتھ دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کی جنگ میں اپنا فرض ادا کیا اور افغانستان میں بھی۔ جماعت اسلامی نے کبھی بھی ریاست کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ راہنماؤں نے کبھی مفادات کی سیاست نہیں کی۔ وہ وقت دور نہیں کہ جب پاکستانی عوام کو جماعت اسلامی کی نظریاتی سیاست کا اچھی طرح ادراک ہو جائے گا۔
تحریک نظام مصطفی کے متعلق میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک عام پاکستانی اورایک عام آدمی کی تحریک تھی۔

اس تحریک میں پورا پاکستان شامل تھا۔ لوگ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے خواہشمند تھے اور ملک میں مکمل اسلامی نظام دیکھنا چاہتے تھے۔ عوام کا یہ مطالبہ یا خواہش غلط نہ تھی پاکستان کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ بنانے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ قائداعظمؒ ، علامہ اقبالؒ اور دوسرے قائدین کا اس معاملے میں نقطہ نظر بالکل واضح تھا۔ سیکولرازم کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پاکستان کے بعض نام نہاد دانشور قائدا عظمؒ کی 11 اگست1947والی تقریر کا حوالہ دیکر جواز پیش کرتے تھے کہ قائداعظم ؒ سکیولر پاکستان کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے۔ 11اگست کی تقریر میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کے متعلق بات کی تھی جوکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ہے۔ اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق کی حفاظت مسلمان ریاست پر فر ض ہوتی ہے۔ مگر پاکستان کے متعلق خود قائد اعظم ؒ کی یہ صرف ایک تقریر تو نہیں ہے۔ ان کی ہر تقریر میں دو قومی نظریہ کی وضاحت ہوئی ہے۔قائداعظم ؒ کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بہت سے ابہام ختم ہوجائیں گے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان اسی دن معرض وجود میں آگیا تھا کہ جب پہلے مسلمان نے یہاں قدم رکھا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ہر تقریر میں وہ مسلمان اور ہندوؤں کو مذہب ، کلچر، ہیروز، روایات، تہذیب و تمدن اور ہر معاملے میں الگ الگ قوم ثابت کرتے رہے۔ پاکستان کی آزادی علاقائی تقسیم نہیں بلکہ دین اسلام کی بنیاد پر ہوئی۔

بعض افراد یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ مولانا مودودیؒ نے پاکستان کی مخالفت کی تھی میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی یا مولانا مودودی نے صرف سسٹم کی مخالفت کی تھی ان کی مخالفت سرداروں، جاگیرداروں، زمینداروں اور گدی نشینوں کو ساتھ ملانے پر تھی اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا کہ ان سرداروں اور جاگیرداروں کی وجہ سے پاکستانی عوام حقیقی آزادی سے محروم رہی۔مولانا مودودیؒ کی اس فکر کو سمجھ لیا جاتا تو انکی مخالفت نہ کی جاتی۔ آج بھی ہر حکومت ان افراد کو ساتھ ملانے پر مجبور ہے ان کی مرضی کی قانون سازی کرنے پر مجبور ہے مگر پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی دل و جان کے ساتھ تعمیر پاکستان میں مصروف ہوگئی۔ مشرقی پاکستان میں حکومت کا ساتھ دیا آج حکومت کا ساتھ دینے والوں کو بنگلہ دیش حکومت پھانسی پر لٹکا رہی ہے۔ 14اگست1947ء سے لے کر آج تک جماعت اسلامی ہر لمحہ دیس کی خدمت کر رہی ہے مقبوضہ کشمیرمیں جاری آزادی کی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر بلند کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ہر لمحہ ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہے۔