مزید خبریں

امان بادشاہ… اسلامی مزدور تحریک کا سپاہی

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس زمین پر اپنے نظام کے نفاذ کے لیے بھیجا ہے اور اللہ تعالی نے پہلے یہ کام ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروںسے لیا اور پھر آخری نبی حضرت محمدؐکے بعد یہ انبیاء کا کام اللہ پاک اپنے نیک بندوں سے لے رہاہے جوکہ برائی کو روکتے ہیں اور نیکی کو فروغ دینے کی عملی جدوجہد کرتے ہیں۔امان بادشاہ پاکستان کی اسلامی مزدور تحریک کا ایساہی روشن ستارہ تھا جس نے دین کو صحیح طور پر سمجھا اور پھر وہ اس پر ڈٹ گیا اور آخری سانسوں تک وہ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف عمل رہا۔کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے امان بادشاہ آٹھ سال کی عمر میں کراچی آئے اور پھر وہ یہی کے ہوکر رہ گئے۔ نوجوانی میں ہی جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں ملازمت حاصل کی اور سکندر حیات جو کہ جماعت اسلامی کی لیبر یونین جنرل ایمپلائز یونین کے صدر تھے اس یونین سے وابستہ ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک یونین کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے ۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جوکہ متحدہ کا دوسرا نائن زیروکہلاتا تھا اور وہاں مزدور فیلڈ میں کام کرنا جُوئے شِیرلانے کے مترادف تھا۔مگر کراچی کے انتہائی بدترین حالات میں امان بادشاہ پہاڑ کی طرح سکندر حیات کے شانہ بشانہ ناصرف یہ کہ کھڑے رہے بلکہ وہ اپنے بدترین مخالفین کو شیروں کی طرح للکارتے بھی رہے ۔ان کی رہائش موسی کالونی سے منسلک واحد کالونی جوکہ ضیاء الدین ہسپتال سے منسلک ہے ان کا گھر ہمیشہ سے تحریک اسلامی کا مرکز بنا رہتا تھا۔امان بادشاہ واٹر بورڈ میں اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے کاموں میں مگن ہوجاتے۔ انہوں نے انتہائی بھرپور تحریکی زندگی گزاری اور اپنی رکنیت کے حلف سے ہمیشہ وفاداری نبھائی۔ نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ، ڈاکٹر مبین اختراور حافظ نعیم الرحمان کے ناظم انتخابات بھی رہے۔ جماعت اسلامی کی اعانت جمع کرنے خود ان لوگوں کے پاس جاتے اور انہیں ان کی بڑی قربت حاصل کی۔ امان بادشاہ احتساب کے معاملے میں بہت سخت تھے اورمعمولی غلطیوں کو بھی برداشت نہیں کرتے اور برملااحتساب کیا کرتے تھے لیکن اگر ان سے کبھی کو غلطی ہوجائے تو فوری معافی بھی مانگ لیتے تھے۔

امان بادشاہ نے اپنے گھر میں تحریکی ماحول پیدا کیا۔ ان کی اہلیہ،بیٹے سب تحریک اسلامی سے وابستہ ہیں۔امان بادشاہ کی یاد میں مسجد الفلاح میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں ان کے صاحبزادے ساجد امان نے اپنے والد کے بارے میں خیالات کااظہار کرتے ہوئے تمام ہی شرکاء کو ایک واقعہ سنا کر رلادیا کہ ایک مرتبہ کسی بات پر ان کے والد نے انہیں اور ان کی اہلیہ کوخوب ڈانٹا جس پر ہم دونوں میاں بیوی سخت افسردہ بھی ہوئے کیونکہ اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں تھی رات کو جب کسی نے انہیں صحیح صورتحال سے آگاہ کیا تو والد صاحب سخت بے چین اور مضطرب ہوئے اور فوری طور پر ہم دونوں میاں بیوی سے معافی مانگنے لگے۔
(جاری ہے)