مزید خبریں

سماجی انصاف اور قومی اتحاد کے موضوع پر ورکشاپ

پنجاب پروینشل کنسلٹیٹو ورکشاپ برائے نیشنل الائنس فار سوشل جسٹس ( NASJ) پاکستان، ایف ای ایس (FES) پاکستان نے نیشنل الائنس فار سوشل جسٹس پاکستان کے موضوع پر دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ جس میں پنجاب بھر سے مزدور رہنماؤں، لیبر فیڈریشنز لیڈرز اور مزدور طبقہ کی فلاح و بہبود کرنے والی تنظیموں نے شرکت کی۔ پروگرام ایڈوائزر FES عبداللہ دائیو اور ان کی ٹیم نے مختلف نظریات کے حامل لیبر لیڈرز کو ایک چھت تلے عظیم مقصد کے لیے جمع کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سوشلسٹ نظریات کے حامل مزدور رہنما اور اسلامی نظریات والے لیبر لیڈرز خوشگوار ماحول میں ’’یک نکاتی ایجنڈا‘‘ پر ڈائلاگ کرتے ہوئے نظر آئے۔افتتاحی تقریب کے بعد شرکاء نے اپنا اپنا تعارف پیش کیا۔ عبداللہ دائیو پروگرام ایڈوائزر FES نے اس ورکشاپ کی غرض و غایت بیان کی۔اس کے بعد ہاؤس اوپن ہوا اور اس مجوزہ ’’الائنس‘‘ کی ضرورت، اس کے دائرہ کار اور اس کی تنظیم کے حوالے سے شرکاء میں بحث کا آغاز ہوا۔ بحث میں شرکت کرتے ہوئے متحدہ لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر محمد اکبر نے کہا کہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ایک ایسے پلیٹ فارم کا قیام ہو جو ٹریڈ یونینز اور لیبر فیڈریشنز کی جدو جہد میں معاون ہو۔ معروف سوشل ایکٹیویسٹ اور PEM کی نیشنل سینئر ایکسپرٹ شاہینہ کوثر نے اس مجوزہ الائنس کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ انہوں نے حکومتی اداروں پر تنقید کرتے کہا کہ لیبرز کی بہبود کے ادارے کرپشن کے اڈے بن چکے ہیں۔ نام نہاد لیبر رہنما حکومتی اداروں کے ساتھ ملی بھگت سے مزدوروں کے نام پر ملنے والی امداد آپس میں بانٹ کر کھا جاتے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی اداروں میں جہاں جہاں لیبرز کی نمائندگی ہے وہاں پر جعلی اور حکومتی نامزد افراد براجمان ہیں۔ جن کی وجہ سے مزدور طبقہ کو ان کے حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ بحث میں محمد عمر سلیمی، روبینہ جمیل، میڈم زرقا، آئمہ علی، اُم لیلیٰ، اسلم معراج، آسی اور مسرت جبین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ چائے کے وقفے کے بعد ایک ویڈیو کے ذریعے ’’پاور ریسورس اپروچ‘‘ کا تعارف پیش کیا گیا۔مبشر اکرم بٹ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر CSED نے ’’پاور ریسورس اپروچ‘‘ پر لیکچر دیا اور شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔اس کے بعد ڈاکٹر علی طارق نے ’’پاور ریسورس ٹول کٹ‘‘ سے متعلق شرکاء کو تربیت دی۔کھانے کے وقفے کے بعد ڈاکٹر علی طارق نے ’’کولیکٹیو بارگینگ‘‘ سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔ ورکشاپ کے دوسرے دن کے آغاز میں عبداللہ دائیو نے دن کی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کی۔عبداللہ دائیو نے بورڈ پر لیبرز کے مسائل ، چیلنجز اور ان کے حل سے متعلق شرکاء سے تفصیلی گفتگو کی اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی۔ اس کے بعد ’’الائنس فار سوشل جسٹس‘‘ کی تشکیل کے لیے مشاورت کا آغاز ہوا۔ سیکرٹری جنرل نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان حسیب الرحمن ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس کا دائرہ کار واضح ہونا چاہیے۔ پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان CBA کے مرکزی سینئر نائب صدر وحیدحیدرشاہ نے تجویز دی کہ اس میں مزدوروں کی قانونی مدد کا شعبہ بھی قائم کیا جائے۔ عبداللہ دائیو نے کہا کہ ہم اس الائنس کی تشکیل کے لیے ایک گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں جو اس الائنس کی تشکیل سے متعلق اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ اور اس الائنس کاقیام ایک ملک گیر لیبر لیڈرز کے کنونشن میں ہوگا۔ آخر میں شرکاء کے تاثرات لیے گئے۔ بزرگ مزدور رہنما چودھری محمد اکبر نے کہا کہ ہمیں NLF کے صدر شمس الرحمن سواتی کے ساتھ دو دن گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نظریات میں اختلاف ہونے کے باوجود سواتی صاحب ایک سمجھدار، دیانتدار قومی مزدور رہنما ہیں۔ ہم ان کی قابلیت سے متاثر ہوئے ہیں۔صدر نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ اب رائٹ اور لیفٹ کی پالیٹکس نہیں رہی۔ اب رائٹ اور رانگ کا زمانہ ہے۔ تمام محروم طبقات رائٹ کی طرف ہیں جبکہ تمام ظالم اور لٹیرے رانگ سائیڈ پر ہیں۔ کسی لیبر لیڈر کا سیاسی نظریات کا حامل ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ مگر اس کی ترجیح مزدور مفاد ہونا چاہیے۔ آخر میں عبداللہ دائیو نے تمام شرکاء کی مزدور کاز کے لیے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا۔