مزید خبریں

اقبال بندہء مولا صفات حیات اقبال کے چند پہلو

شیخ نور محمد نے ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کے ہاں ملازمت کیا اختیار کی ،امام بی بی نے ڈپٹی صاحب کے ذرائع آمدنی پر تحفظات کی بنیاد پر شیرخوار ’بالے‘ کو اپنا دودھ پلانا بند کردیا، کہ اس معصوم کی رگوں میں ناجائز کمائی سرایت نہ کر جائے،اور اپنے زیورات فروخت کر کے بکری خریدلی ،اور یوں ’بالے ‘کی پرورش شیر مادر کے بجائے بکری کے دودھ پر ہونے لگی ۔ یہ سلسلہ شیخ نور محمد کی جانب سے مذکورہ ملازمت اور اس کے ذرائع آمدن کے حوالے سے قابل اطمینان دلائل کی فراہمی تک جاری رہا۔یہ اسی غیر معمولی حفظ و احتیاط اور اکل حلال کا نتیجہ تھا جس نے ’بالے ‘کا اقبال بلند کیا اور وہ شاعر مشرق پکارا گیا، حکیم الامت بنااور’ سر‘ کے خطاب سے سرفراز ہوکر ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کہلایا ۔سادگی وقناعت ،تواضع وانکساری،حلم وعلم ، اکل حلال و صدق مقال علامہ اقبال ؒ کی زندگی کے نمایاںاوصاف ہیں ۔جوں جوں ان کی اقبال مندی کا ستارہ طلوع ہوتا گیا اُن میں فقر و استغناء بڑھتا گیا ،بے خوفی اور بے نفسی آپ کی ذات کا حصہ بن گئے۔ یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
…٭……٭…
ایک موقع پر جب عطیہ فیضی نے عوام میں آپ کی خاص پذیرائی نہ ہونے پر تاسف کا اظہار کیا تو آپ نے انہیں لکھا’’میں سیدھی سادی دیانت دارانہ زندگی بسر کرتا ہوں، میرا دل اور میری زبان ایک دوسرے کے کلیتاً ہمنوا ہیں ، لوگ ریا کاری کا احترام بھی کرتے ہیںاور تعریف بھی ۔اگر ریاکاری سے مجھے شہرت ،احترام اور تعریف حاصل ہوئی تو میں اسے پسند کروں گا کہ میں ایسی حالت میں مرجاؤں جب کہ مجھے جاننے والا اور میرا ماتم کرنے والا کوئی بھی نہ ہو…میں ان رسوم ورواج کا احترام کرنے کی غرض سے جو انسانی دماغ کی فطری آزادی کو دباتے ہیں ، اپنے آپ کو جھکا نہیں سکتا۔‘‘ جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدارشہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
…٭……٭…
تیسری گول میز کانفرنس کے بعدعلامہ اقبال ؒ کو ہسپانیہ کی سیاحت کا موقع ملا،یہ سفر والئی بھوپال نواب حمید اللہ خان کے خصوصی التفات کے نتیجہ تھا،منتظمین نے اس سفر میں علامہ کی رہنمائی کے لیے ایک خاتون سیکریٹری کا بھی تقرر کیا تھا ۔ دوران سفر پہلے تو وہ محترمہ رسمی انداز میں خدمات انجام دیتی رہیں مگر تھوڑے ہی عرصے میں ان کا رویہ اقبال کے ساتھ ایسا ہوگیا جیسے وہ علامہ کی پرائیویٹ سیکریٹری نہیں کوئی مریدنی ہو ۔جب اقبال ؒ نے اُس سے رویہ میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ دریافت کی تو اُس کا جواب تھا ’’مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ آپ ایک آسمانی مخلوق ہیں۔‘‘ خاکی و نوری نہاد ، بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیازاس سیکریٹری کے بارے میں ہسپانیہ کے ایک اخبار میں یہ چھپ گیا کہ’’ علامہ محمد اقبال کی بیٹی بھی ساتھ ہے جو دبلی پتلی سفید فام ہے۔‘‘
…٭……٭…
مودودصابری جو علامہ اقبال سے شکلا ً واقف نہیں تھے ،علامہ سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں کوٹھی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سامنے چبوترے پر ایک نواڑی پلنگ پڑا تھا ، حضرت علامہ اقبال سفید تہبند اور نیم آستین کا سفید بنیان پہنے،گاؤ تکیہ کے سہارے بیٹھے حقہ پی رہے ہیں،یہ دیکھ کر میں بہت حیران ہو ا کیونکہ میں ’پیام مشرق اور بانگ درا‘ والے اقبال سے ملاقات کا تمنائی تھا پر یہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا، چنانچہ دل کی بات زبان پر آ ہی گئی،جس پر علامہ اقبال نے فرمایا’’میاں صاحبزادے ! تم پیام مشرق والے جس اقبال سے ملنے آئے ہو وہ یہاں نہیں رہتا ،یہاں تو سیالکوٹ والا اقبال رہتا ہے ،اس سے ملنا پسند کرو تو حاضر ہے‘‘…مودود صابری جو پہلے ہی حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہے تھے گویا ہوئے ’’سنا ہے ان کا آپ کے یہاں آنا جانا ہے ،جب آئیں تو میرا سلام شوق پہنچا دیں ‘‘اقبال نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’تم نے ٹھیک سنا ہے مگر افسوس جب تمہارا اقبال