مزید خبریں

علامہ اقبال کا پیغام امت مسلمہ کے نام

علامہ اقبالؒ نے ’’اسرار و رْموز‘‘ کی آخری نظم: ’’عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمین‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ اْمت مسلمہ کی حیثیت ایک بے جان لاش کی سی ہوگئی ہے۔ یہ آپ کی تعلیمات اور آپ کی ذات کو بھول کر آپ سے ناآشنا ہوگئی ہے۔ اس کے تمام دْکھوں کا مداوا کرنے کے لیے میں نے اس کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیمات سے اس کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ کے حضور میں اس کو پیش کیاہے۔ حضور سے عرض کرتے ہیں کہ پہلے بھی آپ ہی نے انسانیت کو ایک حیات بخش پیغام سے آشنا کیا۔ اب میں آپ ہی کے سامنے آپ کی اْمت کو لے کر آیا ہوں، آپ ہی اس اْمت کا علاج کرسکتے ہیں۔
اس نظم میں حضور نبی کریم ﷺسے اقبال کا عشق و محبت کا تعلق بالکل صاف جھلکتاہے۔ فارسی کی اس نظم میں وہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اپنی امّی سے آپ کا نام سناہے اور آپ سے آشنا ہوا ہوں، آپ مجھے اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں۔ جب اس اْمت کے دل میں آپ کی محبت جاگزیں ہوگی اور آپ پھر سے اس اْمت کے محبوب بنیں گے تب ہی اس کے تمام دْکھوں کا مداوا ہوسکے گا۔ اگر فارسی سمجھنے والے اس نظم ’’عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمین‘‘کا مطالعہ کریں تو انھیں اندازہ ہوگا کہ اقبال دلوں میں حضور کی محبت پیدا کر کے ہمیں قرآنِ پاک کی تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے عام شعرا کی

طرح شاعری شوقیہ نہیں اپنائی بلکہ شعرگوئی کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا ہے۔
کہاں شاعری اور کہاں میں، شاعری تو ایک بہانہ ہے۔ میرا اصل کام یہ ہے کہ جو ناقہ بے زمام (اْمت مسلمہ) ہے اس کو قطار کے اندر کسی نظم و ضبط کے تحت لے آئوں۔ چنانچہاقبالؒ اْمت کو بتاتے ہیں کہ تیرا اصل محبوب کون ہے۔ وہ اْمت کی تمام خرابیوں

کا سبب یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے محبوب کو بھول گئی ہے۔
کہ میں ایک رات زار و قطار اللہ کے حضور میں روتا رہا۔ میں نے کہا کہ یہ مسلمان کیوں ذلیل و خوار ہیں؟ ندا آئی کہ کیا تمھیں پتا نہیں کہ اس قوم کے سینے میں دل ہے لیکن اس میں محبوب نہیں ہے۔ چنانچہاقبالؒ کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ اْمت کی پہچان کرا دیں۔ اور دلوں میں نبی کی محبت ڈالنے کے بعد وہ حضور، ان کی سیرت و تعلیمات، شریعت اور قرآن کے ذریعے اصلاح کا کام

کریں۔
مسلمان کے دل میں محمدﷺ کا مقام ہے۔ ہماری آبرو ان کے نام کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے حرا کی تاریکیوں میں خلوت اختیار کی تو قوم بنائی، حکومت بنائی اور آئین بنایا اور دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔ یعنی دین اور دْنیا کوئی الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دین، دْنیا کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ ہے۔ انھوں نے دْنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا کہ کس طریقے سے دْنیا میں رہنا ہے اور بندوں کے کیا حقوق ہیں، اللہ کے کیا حقوق ہیں، آپس میں کس طریقے سے مل جل کر رہنا ہے اور گھر کے اندر کیسے رہنا ہے، معاملات کیسے طے کرنے ہیں۔ یہ دین کے تمام اصول اور طریقے دنیا میں جینے کا سلیقہ سکھانے کے لیے آئے ہیں۔

حضور نے جو آئین دیا تھا اس کی تشریح اقبال کے کلام میں جگہ جگہ ملتی ہے۔ وہ آئین کیا تھا جو نبی نے دیا تھا؟ وہ قوم کون سی تھی جس کو حضور نے پیغام دیا اور جس کی تشکیل کی۔ اوراس حکومت کے کیا اصول تھے جو حضور نے قائم فرمائی۔اقبالؒ نے اپنے کلام میں جگہ جگہ کہا ہے کہ قرآن کریم وہ آئین ہے جو حضور نے اس اْمت مسلمہ کو دیا ،وہ زندہ کتاب قرآنِ کریم ہے۔ اس کی حکمت لازوال اور ہمیشہ سے ہے۔ قرآنِ کریم کی یہ شان ہے کہ جب ایک دور گزرتا ہے تو دوسرے دور کے لیے نئی آب و تاب کے ساتھ اپنی تعلیمات کو پیش کر دیتا ہے۔ اس کی تعلیمات کبھی پرانی نہیں ہوتیں۔ یہ آئین (قرآن مجید) زمان و مکان کی حدود میں محصور نہیں۔’’اسرار و رْموز‘‘ میں اس پر باب باندھے گئے ہیں کہ اس اْمت کا نہ کوئی انتہاے زمانی ہے اور نہ کوئی انتہاے مکانی ہے۔ جو آئین اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ زمان و مکان کی حدود سے بالاتر ہے۔یعنی کوئی زمان و مکاں کی حد نہیں ہے۔ جو بھی ملک ہو اور جو بھی زمانہ ہو،حضور کی تعلیمات ہر ملک اور ہر زمانے کے لیے ہیں۔ یہ دین قید مکاں اور قید زماں سے آزاد ہے۔اقبالؒ حضور کی ملّت کے بارے میں کہتے ہیں

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اقوامِ مغرب، وطن اور زبان و مکان کی بنیاد پر قومیت کی قائل ہیں، لیکن اقبال کہتا ہے کہ وطنی قومیت کو بت بنانا حضور کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے اور اسی طرح وطن پرستی کے بارے میں کہتے ہیں

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

وہ بتاتے ہیں کہ حضور نے جو اْمت بتائی ہے وہ کس طرح زبان، مکان اور نسل اورعلاقے کی حدود سے بالاتر ہے۔ فرماتے ہیں:ہم نہ افغان ہیں، نہ ترک ہیں، نہ تاتار ہیں۔ مختلف اشعار میں کہتے ہیں کہ نہ حجازی نہ چینی، نہ ہندی بلکہ ہم تو حضور کی ذات بابرکات کے گرد جمع ہونے والی ایک اْمت ہیں۔

جن غیروں کا ذکراقبالؒ نے اپنے اشعار میں کیا کہ انھوں نے اس دنیا میں غلبہ حاصل کر کے روے زمین کو اپنی آماجگاہ بنالیا ہے۔ یہ غیر کون ہیں؟ ان کی نمایندہ مغربی تہذیب ہے۔ اقبالؒ نے بتایا کہ یہ کچی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ۱۹۰۵ئسے ۱۹۰۸ء کے درمیاناقبالؒ یورپ میں علم حاصل کر رہے تھے۔ ۱۹۰۷ء میں انھوں نے یہ نظم لکھی تھی اور پیش گوئی کی تھی

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اْلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپایدار ہو گا

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مسلمان اْردو دان طبقہ کے پاس ایک بہت بڑی نعمت اور حیات بخش پیغام ہے اور مسلمان نوجوانوں کا فرض ہے کہ اسے اپنے قلوب و اذہان کو گرمانے کے لیے استعمال کریں۔ اقبال نے خود کہا ہے
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کاررواں ہمارا
اقبالؒ نے ملت اسلامیہ کو دوبارہ سرگرم ہونے کے لیے آواز دی ہے۔ اس کے نتیجے میں قافلہ چل پڑا ہے۔ اقبالؒ کا کلام قافلے کے

امامت
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رْخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
لیے بانگ ِدرا ہے۔

شہادت

یہ غازی یہ تیرے پْراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ، ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت ، نہ کشور کشائی