مزید خبریں

فلسطینیوں کی نسل کشی یہود کے عقائد میں شامل ہے

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس سے فلسطین کے معصوم بچوں کے خلاف ایک مجرمانہ پوسٹ کو شیئر کرنے کے بعد اسے حذف کر دیا۔ یہ پوسٹ منگل کے روز غزہ کی پٹی کے معمدانی اسپتال میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے اور نہتے بچوں کے قتل عام کے قتل عام کے بعد سامنے آئی تھی۔ پوسٹ کے مطابق حماس کے ساتھ اسرائیل کا تنازع روشنی کے بچوں اور اندھیرے کے بچوں اور انسانیت اور جنگل کے قانون کے درمیان تنازع ہے۔ نیتن یاہو کے بیانات سبقت لسانی نہیں تھے بلکہ گہری جڑوں والے مجرمانہ نظریے کا اظہار تھا۔ امریکی یہودی میگزین مومنٹ نے مئی 2009 ء کے شمارے میں صہیونی ربی مانیس فریڈ مین کا انٹرویو شائع کیاتھا۔ یہودیوں کے ساتھ نمٹنے کے مثالی طریقے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ یہودی ربی نے کہا کہ اخلاقی جنگ چھیڑنے کا واحد راستہ یہودیوں کا طریقہ ہے۔ ان کے مقدس مقامات کو تباہ کرنا اور ان کو قتل کرنا۔ مرد، عورتیں، بچے اور مویشی ہر چیز کو ہلاک کرنا ہمارا عقیدہ ہے۔ فریڈمین نے انٹرویو میں کہا کہ فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مسلسل مزاحمت سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ واحد حقیقی رکاوٹ ہے اور یہی تورات کی اقدار ہیں۔ فریڈمین نے فلسطینیوں کے ساتھ بہترین برتاؤ کا اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جنت کی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ یہ موقف فلسطین اور اس کے لوگوں کے بارے میں یہودیوں کے موقف کے بارے میں مکمل طور پر واضح کرتا ہے۔ نسل کشی اور دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی ایک نظریاتی بنیاد ہے۔ یہاں تک کہ بار ایلان یونیورسٹی کے ربی اسرائیل ہیس نے بھی واضح طور پر اعلان کیا کہ اس دور کے عمالیقیوں (فلسطینیوں) کے ساتھ کوئی نرمی یا رحم نہیں کیا جائے گا ،انہیں قتل کیا جانا چاہیے، یہاں تک کہ ان کے شیر خواروں کو نہیں بخشا جانا چاہیے۔ مغربی کنارے میں آباد کاری کونسل کے سربراہ بینزی لیبرمین نے اس رائے کا اعلان کیا جو فلسطینیوں کو ’’عمالیق‘‘ سمجھتے تھے، یعنی انہیں تباہ کر دیا جانا چاہیے۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی بچوں کو نشانہ بنانے، قتل کرنے اور گرفتار کرنے کی کارروائیاں صہیونی نظریے اورعقیدے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل نے غاصبانہ قبضے کے خلاف نسلوں کی مزاحمت کو ڈرانے اور خوف طاری کرنے کے لیے بچوں کو نشانہ بنانے کا مکروہ حربہ استعمال کیا۔ پچھلی 2دہائیوں میں غزہ کے خلاف قابض ریاست کی ہر جنگ میں وہ بچوں کی سب سے بڑی تعداد کو قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس خوف سے کہ وہ بعد میں مزاحمت کی علامت بن جائیں گے۔ انتفاضہ الاقصیٰ کے آغاز سے لے کر مارچ 2016 ء کے آخر تک تقریباً 2070 بچے شہید اور 13000 سے زائد فلسطینی بچے زخمی ہوئے۔ قابض فوج نے اسی عرصے میں 12000 سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار بھی کیا۔ایک ایسے وقت میں جب غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک 10 دنوں کے اندر فلسطینی بچوں کے شہدا کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسرائیل نے 1967 ء سے اب تک 50ہزار سے زائد بچوں کو گرفتار کیا ہے، جس کا مقصد بچوں اور ان کے خاندانوں کو نفسیاتی طور پر متاثر کرنا ہے۔ اس وقت بھی تقریباً 160 بچے قبضے کی جیلوں میں بند ہیں۔