مزید خبریں

صدی کا سب سے بڑا قتل

ایک سسکتی صبح ،حکیم محمد سعید کے لہو کو اخباروں کی سرخی بننا تھا اور سمندر کی لہروں نے سارے پاکستان پر پھیلی ہوئی آنسوؤں کی چادرکو دیکھ کر شرم سے منہ چھپانا تھا ۔جب انکو قبر میں اتارا گیا تو انکے سفید براق لباس پر صرف خون کے داغ تھے ،کفن ان سے لپٹ لپٹ کے رویا،زمین نے خوشبو کا بستر بچھا دیا،پھولوں نے چہرے کی بلائیں لیں ،مٹی نے زخموں کوچوما۔۔۔۔ارواح نے بڑھ کر استقبال کیا۔انسانیت کا سربلند کر کے آنے والے ۔۔۔۔۔اہلاً و سھلاً۔

اے اہل کراچی!تمہارے شہر کے سورج کو کس نے قتل کر دیا روزتمہارے ہاں قتل ہوتے ہیں ،روز تم آنسو پونچھتے ہوئے اپنے عافیت کدوں میں دبک جاتے ہو روز واویلا ہوتا ہے ۔روز جنازے اٹھتے ہیں ہم نے تم سے کبھی حساب نہیں مانگا کبھی جواب نہیں مانگا ۔آج ہمیں ضرور بتاؤ۔پاکستان کے دیوانے کوتم نے کیوں قتل کروا دیا ۔آج تم اپنے عافیت کدوں میں کیسے جاؤگے۔سورج کے بنا شہر کیسے بساؤ گے۔

سمندر کے سیلاب کو روک لیتے ہو۔آنسوؤں کے سیلاب کو کیسے روکو گے۔۔۔۔۔یہ چاروں صوبوں سے رواں ہے ۔۔۔۔۔دیئے کے بغیر شامیں کیسے سجاؤ گے؟

تمہارے شہر میں دن دیہاڑے اللہ کا نیک بندہ سفاکوں کی بھینٹ چڑھ گیا تم دیکھتے رہ گئے چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پرونے والے درویش کو تعصب نے ڈس لیا ۔میٹھے بول کی خیرات دینے ولا شہنشاہ ایک گولی کا محتاج ہوا۔ بیکسوں لاچاروں کی جھولیاں بھرنے والے کا پیرا ہن تار تار ہوا۔تم سے ایک شخص نہ بچایا گیا جومحبت کی سب سے بڑی ضمانت تھا جسکی صورت نقش پاکستان کے نقشے سے ملتے تھے ۔جسکی شکل پر وفا کا لفظ کندہ تھا جس نے تاج و تخت حاصل کرنے کے لیے وفاق کا نعرہ نہیں لگایا تھا مگر وفاق کی خاطر جان دینے کا عزم کیاتھا جو جائیدادیں بنانے کے لیے پاکستان میں نہیں آیا تھا مگر جس نے کہا تھا تمہاری سب سے قیمتی جاگیر پاکستان ہی ہے اسے تند آندھیوں سے بچائے رکھنا جس نے دو ہاتھوں کی محنت سے دولت کمائی اور اسے تعمیرکے نام وقف کر دیا جس نے علم حاصل کیا تو اسے عمل کے نام پر چڑھا دیا جس نے جرا¿ ت کے اسباق ازبر کئے تو اسے صداقت کے حوالے کردیا جس نے صحت کو نعمت عظمیٰ جانا تو زندگی کی اک اک سانس فلاح عامہ کیلئے دان کر دی جو پاکستان کے کسی شہر کے اندر پیدا نہیں ہوا تھا ۔۔۔مگر جو پاکستان کے ہر شہر کے اندر پاکستان کی علامت بن گیا تھا جو عیش و نشاط کی راہوں کی تلا ش میں ممالک غیر کے دورے نہیں کرتا تھا بلکہ پاکستانیت کے پرچار کیلئے نگر نگر،دشت دشت اور صحرا صحرا گھوما کرتا تھا جس نے رزق حلال کمایا پھر اسکی برکت کو پھیلانے کا گر سمجھایا ۔جسکو اللہ نے ہردینوی نعمت سے نوازا تھا مگر وہ اپنے پیارے نبی ﷺ کی پیروی کو اپنا جزو ایمان سمجھ کے انتہائی سادہ زندگی بسر کرتا تھا اسکو دربار شاہی میں جبہ سائی کا شوق نہیں تھا بارہا قریب آئی امیرانہ مراعات کو اس نے ٹھکرا یا تھا ۔جس نے آسائشوں کو ٹھوکر مار کر فقیری کوگلے لگایا تھا جسکا دست مسیحا قوم کی نبض پر بھی تھا اور بیماروں کی نبض پر بھی تھا۔۔۔جو زندگی بسر کرنے کا راز تقسیم کرتا تھا اور بندگی کے گرسکھاتاپھرتا تھا ،جو پاکستانی باشندوں سے مایوس نہیں تھا مگر اقتداری کارندوں کوللکار تا رہتا تھا جسکی زبان نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جو اللہ اور اسکے بندوں کو ناپسند ہو جس نے سچ بولا۔۔اور سچ کے عوض خود اپنی گردن پیش کی جسکے لہجے میں جوانوں کی سی گرمی تھی اور جسکو رزق حلال کی لذت نے تب وتاب شاہانہ عطا کی جسکے دن آگہی سے مزین تھے جسکی راتیں عفان سے گندھی ہوئی تھیں جس نے تناور درختوں کی چھاؤں میں چھید تلاش کئے تھے تو نئی پنیری لگانے کیلئے زمین ہموارکرنے میں لگا تھا۔جس نے چوردروازوں سے سمگل ہونے والی سازشیں پکڑی تھیں اور ببانگ دہل چلا اٹھا تھا جسکی صبحیں اورشامیں اسکے آگے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھیں جو ایک ایک سانس کے ساتھ کئی کئی کام کرتا تھا فضائیں جس کے فضائی سفر کی میزبان ہوتی تھی جسکا ہر قدم فلاح کیلئے اٹھا۔۔۔۔۔

جسکا ہر بول پاکستان کیلئے تھا جسکی ہر بات امانت اور دیانت کی امین تھی جسکی انگلیوں کی پوریں کلام پاک کے ہر صفحے کی آیت سے مسیحائی کی دعا لے کر اٹھتی تھیں جسکو اللہ نے انواع واقسام کی نعمتیں عطا کی تھیں مگر وہ روزے سے رہتاتھا جسکے ہاں اطلس و کم خواب کی کمی نہ تھی مگر تقویٰ کا لباس پہنتا تھا۔۔۔۔محفل میں کیا آتا روشنی آجاتی۔۔۔

وہ تہجد گزار ،وہ شب زندہ دار ،وہ طرفدار۔وہ ملت کا غمگسار۔۔۔

وہ تمہارے سامنے قتل ہوا۔۔۔۔

لہو میں نہایا ۔۔۔

اور وفا کی رسم بنھاکے آرام سے چال گیا:

لوگو!سنویہ اس صدی کا سب سے بڑا قتل ہے کیونکہ کسی شقی القلب بد باطن اور بدبو دار شخص نے نصف صدی کی کاوشوں کو قتل کر دیا ہے ۔یہ پاکستان کی بھلائی کیلئے اُٹھنے والے ہاتھوں کا قتل ہے ۔سارے یتیموں اور بیواؤں کی آہوں کا قتل ہے ۔بیماروں ،ناداروں ،لاچاروں ،اور غم کے ماروں کی تمنا ؤں کا قتل ہے۔۔۔۔شفاخانوں میں پڑی ہوئی جڑی بوٹیوں اور دواؤں کا قتل ہے۔عشق کالبادہ اوڑھنے والے سارے دیوانوں کا قتل ہے ۔یہ شرافت و نجات کے بیداغ لباسوں کا قتل ہے۔۔۔۔۔

مستقبل کی آس کا قتل ہے ۔۔۔۔۔

تکریم و تعظیم کا قتل ہے ۔۔۔۔۔

رواداری اور انکسارکا قتل ہے ۔۔۔۔۔

جاں نثاری اور غمگساری کا قتل ہے ۔صداقت اور شجاعت کا قتل ہے ،رفاقت اور محبت کا قتل ہے ،آبروئے حمیت کا قتل ہے ۔کشادہ دست کرم کا قتل ہے ۔۔۔آدمیت کے علمبردار کا قتل ہے ۔

نقارہ بے باک کا قتل ہے ۔۔۔۔۔آواز اخلاق کا قتل ہے ۔۔۔۔۔وفاق کا قتل ہے :

ایک لمحے میں اتنے قتل۔۔۔۔

ایک اہل کراچی!

ہم ہرقتل پر تمہارے لیے روتے ہیں ۔آج آؤ تم ہمارے ساتھ مل کر روؤ۔۔۔۔۔۔ہماری ساری ساکھ تمہارے شہرمیں قتل ہوگئی ۔

آج پنجاب،سرحد بلوچستان کے آنسو نہیں تھمتے ۔۔۔۔آج اسلام آباد سر جھکائے کھڑاہے ،تم ہم سب کی چیخیں سن رہے ہو۔۔۔۔۔۔

اے اہل کراچی آؤ۔۔۔۔۔پنجاب کے گلے لگ جائے پنجاب بلک بلک کر رو رہا ہے ۔

اے اہل کراچی آؤ۔۔۔۔۔۔سرحد کے کاندھے سے لگ جاؤ۔۔۔یہاں آنسو ؤں کا آبشار کھلاہے۔

اے اہل کراچی آؤ۔۔۔۔۔۔۔بلوچستان کو سینے سے لگالو۔پہاڑوں کے دل رو رہے ہیں۔

ارے دور کیوں کھڑے ہو۔۔۔۔

سمجھتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔

میرے بابا نے تو موقع مہیا کیا ہے ،اختلاف تھوک کے گلے لگ جانے کا۔۔۔یہی تو وہ کہتے رہتے تھے۔میرے بچو!ایک ہو جائے ۔۔۔اگر اسکی شرط میرا لہو ہے ۔تو حاضر ہے!